کراچی (این این آئی)انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیے جانے کے سبب 7سال گزر جانے کے باوجود ملزمان کیفر کردار تک نہیں پہنچایاجاسکاہے۔نجی ٹی وی کے رپورٹر ولی خان بابر کے قتل کو سات سال گزر گئے ۔ ملزمان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ملنے والی سزاوں کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے ایسے میں اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ
ولی بابر کوبانی ایم کیو ایم کی سابق اہلیہ کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کی کوشش پر قتل کیا گیا تھا۔ولی خان بابر کو 13 جنوری 2011 کی رات دفتر سے گھر جاتے ہوئے کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں قتل کردیا گیا تھا۔واردات کی منصوبہ بندی اس قدر خفیہ کی گئی تھی کہ قاتلوں کا سراغ شاید کبھی بھی نہیں مل پاتا لیکن ملزمان کی ایک کار کے رجسٹریشن نمبر نے پورا منصوبہ فاش کردیا تھا۔اس وقت کے وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا کی کوششوں سے ولی بابر کے قتل کے 85 دن بعد پولیس نے انتہائی جاں فشانی سے کی گئی تفتیش کے دوران واردات میں ملوث 5 ملزمان کو گرفتارکرلیا تھا جنہیں بعد میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سزائیں سنائیں۔ایک مفرور ملزم خالد موٹا کو ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر نائن زیرو پر کئے گئے رینجرز کے آپریشن کے دوران گرفتار کیا گیا۔ پولیس حکام کے مطابق گرفتار تمام ملزمان نے اس وقت کی ایم کیو ایم کی اعلی قیادت کے حکم پر ولی بابر کو قتل کرنے کا اعتراف تو کیا تھا لیکن اس قتل کے اصل محرکات آج تک سامنے نہیں آئے تھے اور نہ ہی اس واردات کے پس پردہ اصل کرداروں سامنے آسکے تھے۔ولی بابر قتل کیس سے جڑے ایک اہم پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر سات سال بعد اب انکشاف کیا ہے کہ ولی بابر کے قتل اور ملزمان کی گرفتاریوں کے دنوں میں قتل کے محرکات پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ پولیس کا اصل فوکس ملزمان سے قتل کا اعتراف کرانا تھا اور انہیں عدالت سے سزائیں دلانا تھا
حالانکہ ملزمان پارٹی کی اعلی قیادت اور بیرون ملک کرداروں کے بارے میں انکشافات کرتے رہے لیکن کسی نے انہیں کیس میں شامل کرنے پر توجہ نہیں دی۔پولیس ذرائع کے مطابق جس روز ولی بابر کو قتل کیا گیا اس سے اگلے روز وہ بانی ایم کیو ایم کی سابقہ اہلیہ فائزہ گبول کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کیلئے جانے والے تھے اور اس سلسلے میں اس وقت کے سندھ کے ایک صوبائی وزیر نے تمام معاملات لائن اپ کر لیے تھے مگر منصوبہ بندی کے تحت ولی خان بابر کو یہ انٹرویو ریکارڈ کرنے کی مہلت ہی نہیں دی گئی ۔
پولیس حکام کے مطابق ولی خان بابر کے قتل میں ملوث کارندے انجام تک پہنچ ہی جائیں گے لیکن اس قتل میں ملوث پس پردہ اصل کرداروں کا سراغ ابھی باقی ہے۔پولیس ذرائع کے مطابق ہالی وڈ کی فلمی کہانیوں کی طرح کیس کے اہم کرداروں کے پے در پے قتل کی وارداتوں میں ملوث ملزمان اور ان کی پشت پناہی کرنے والے کرداروں کا سراغ لگانا ابھی باقی ہے۔کیس کی تفتیش کے ابتدا میں ہی قاتلوں کی گاڑی کی نشاندہی اور اسے برآمد کرانے والے دو پولیس اہلکاروں سمیت تین اہم کرداروں کو قتل کردیا گیا تھا۔
واردات کے 85 دن بعد ملزمان گرفتارکئے گئے تو ملزمان کو پکڑنے والے ایس ایچ او شفیق تنولی کے بھائی کو اسی روز گلشن اقبال میں قتل کردیا گیا۔ولی بابر کے قتل کا مرکزی اشتہاری ملزم لیاقت علی 26 مئی 2012 کو کلفٹن میں شفیق تنولی کے ہاتھوں مارا گیا جس کے بعد شفیق تنولی کے ساتھی اہلکار کو قتل کردیا گیا۔عدالت میں ملزمان کو شناخت کرنے والے ایک اہم گواہ حیدرعلی کو سولجر بازار میں گھر میں گھس کر موت کی نیند سلا دیا گیا۔ کیس کے کرداروں کے پے در پے قتل اور دھمکیوں کے بعد کئی وکیل ڈر کر کیس سے الگ ہوگئے تھے مگر پھر بھی وکالت کے لئے تیار نعمت علی رندھاوا ایڈووکیٹ کو 26 ستمبر 2013 کو ولی بابر پر حملے کے انداز میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے نارتھ ناظم آباد میں قتل کیا گیا۔
صورتحال خوفناک حد تک سنگین ہوئی تو کیس کی سماعت سندھ کے شہر کندھ کوٹ منتقل کردی۔ وہاں بھی پیروی جاری رکھنے پر کیس کے پراسیکوٹر عبدالمعروف کے گھر پر مسلح حملہ کیا گیا جس میں وہ محفوظ رہے۔بیس دسمبر2013 کو کیس کے مرکزی تفتیشی افسر شفیق تنولی پر پی آئی بی کالونی میں بم حملہ کیا گیا جس میں دو افراد جاں بحق جبکہ شفیق تنولی سمیت 28 افراد زخمی ہوئے۔بعدازاں شفیق تنولی بھی کراچی میں دہشت گردی کی ایک واردات میں موت کا شکار ہوگئے۔حالات کی سنگینی کی بنا پر مقدمے کی سماعت کراچی سے اندرون سندھ کے شہر کندکوٹ منتقل کردی گئی۔یکم مارچ 2014 کو کندھ کوٹ میں انسداد دہشت گری کی خصوصی عدالت نے ولی بابر کے قتل کیس کا فیصلہ سنایا جس کے خلاف ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیلیں کر رکھی ہیں۔