لاہور( این این آئی) ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن پنجاب بریگیڈیئر (ر) مظفر علی رانجھا نے انکشاف کیا ہے کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس دفاترکرپشن میں پہلے ، لینڈ ریکارڈ دوسرے اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن تیسرے نمبر پر ہے،صاف پانی پراجیکٹ میں اربوں کی کرپشن کو ناکام بنایاگیا، کمپنی کے پانچ افراد کے نام ای سی ایل میں ڈال دیئے گئے ہیں ،ملوث افراد اسی ماہ سلاخوں کے پیچھے ہونگے، ایک سال کے دوران تقریباً 2ارب روپے وصول کر کے
قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں جو ایک ریکارڈ ہے، کرپشن کے خلاف جنگ میں ہارنے کی گنجائش نہیں ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے دیگر افسران کے ہمراہ اینٹی کرپشن کے ہیڈ کوارٹرمیں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ بریگیڈئیر (ر) مظفر علی رانجھا نے بتایا کہ اینٹی کرپشن پنجاب نے ایل ڈی اے کے ساتھ مل کر غیر قانونی ہاؤسنگ کالونیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے اور اس میں کسی بلا تفریق کارروائی کی جائے گی ۔ انہوں نے بتایا کہ نئی درخواستوں کو دیکھنے کے ساتھ زیر التواء کیسز کو بھی نمٹا رہے ہیں اور اس میں کامیاب رہے ہیں اور یہ کسی فعال محکمے کی واضح نشانی ہوتی ہے۔ایک سال میں28709میں سے 28454 ،14800انکوائریز میں سے 14334اور3634کیسز میں سے3003 نمٹادی ہیں ۔انہوں نے اس موقع پر انکشاف کیا کہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کرپشن میں پہلے نمبر پر ،لینڈ ریکارڈ دوسرے اور ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن تیسرے نمبر پر ہے ۔محکمہ فنانس ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس دفاتر کی یہ حالت ہے کہ شہید اہلکار کی بیوہ سے بھی رشوت لئے بغیر اس کا کام نہیں کرتے ۔ ڈھائی کروڑ کے چیک پر دو سے ڈھائی فیصد رشوت لی جاتی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ ایک سال میں اراضی واگزار کرانے سمیت تقریباًدو ارب روپے کی ریکوری کی گئی ۔50کروڑ کی ریکوری کے معاملات پائپ لائن میں ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اینٹی کرپشن کی جانب سے 411 چھاپے مارے گئے جن میں 2346افراد گرفتار ہوئے ۔
انہوں نے کہا کہ صاف پانی منصوبے میں اربوں روپے کی بڑی کرپشن کی تیاری کی جارہی تھی جو وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کی حاضر دماغی اوراینٹی کرپشن کی بروقت کارروائی سے ناممکن ہوئی، منصوبے میں ملوث افسران نے اصل لاگت سے تین گنا زیادہ کے اخراجات ظاہرکرکے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وزیراعلی شہبازشریف کی ہدایت پر ہم نے فرانزک کے ذریعے ان افراد کے ڈیٹا تک رسائی لی اور حقائق تک پہنچے۔ انہوں نے کہاکہ سابق چیف ایگزیکٹو آفیسروسیم اجمل ،
سابق چیف کنٹریکٹر اینڈ پروکیورمنٹ شبنم نجف ،سابق جنرل منیجر پراجیکٹ اینڈ سروسز کرنل (ر)طاہر مقبول اور سابق چیف فنانشل آفیسر ناصر قادر بھنڈر کے نام ای سی ایل میں ڈالے جاچکے ہیں انشااللہ وہ بھی جلد قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن نے صوبے کے تمام اضلاع میں سروے شروع کردیا ہے جس میں فوکس کیاجارہاہے کہ کس ضلع میں کونسا محکمہ سرفہرست اور اس سے متعلق شکایات ہیں ، قریباً 17اضلاع کے جائزہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سب سے زیادہ
محکمہ فنانس کے ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس دفاتر میں کرپشن ہورہی ہے اورسب سے زیادہ شکایات بھی اسی محکمے سے متعلق آرہی ہیں، ہم سروے مکمل کرنے کے بعد یہ رپورٹ اوپر بھجوائیں گے تاکہ اس کی روشنی میں سدباب کیاجاسکے۔ فنانس ڈیپارٹمنٹ کی جب بھی بات ہوگی وہاں دو سے اڑھائی فیصد کرپشن ضرور نکلے گی۔ انہوں نے کہا کہ صاف پانی پراجیکٹ سمیت درجنوں ہائی پرو فائل کیسز پر تفشیش کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اینٹی کرپشن میں پلی بار گیننگ کا کوئی قانون موجود نہیں ہے جو پکڑا گیا
اس سے مکمل ریکوری بھی کی جاتی ہے اور قانون کے مطابق سزا بھی دی جا تی ہے۔انہوں نے کہاکہ اینٹی کرپشن کی تاریخ میں پہلی دفعہ درخواستوں ،انکوائریوں ،مقدمات اور عدالتی چالانوں سمیت اشتہاریوں کیخلاف سو فیصد نتائج حا صل کیے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ اینٹی کرپشن کی کارکردگی کو بہتر بنا نے کیلئے تما م وسائل بروئے کا ر لائے جارہیں جس میں افسران وملازمین کو دفتری امور سرانجام دینے کیلئے سہولتیں سائلین کو معلومات کیلئے مینجمنٹ کانٹر ،کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سسٹم وغیر ہ شامل ہے
اس حوالے سے پنجاب بھر اینٹی کرپشن کے اپنے نئے کیمپس بھی بنائے جارہے ہیں جبکہ ویجیلینس سیل کا قیام بھی بہت جلد شروع کیا جارہے۔ایک سال کی کارکردگی بیان کرتے ہوئے۔ محکمہ اینٹی کرپشن کا پنجاب میں نیٹ ورک نیب سے کہیں زیادہ بڑا ہے ،محکمہ اینٹی کرپشن ایل ڈی اے، محکمہ مال اور دیگر محکموں میں کرپٹ ملزمان کے خلاف تیزی سے کام کررہی ہے ،اورنج لائن کیس میں مقبول کالسن کمپنی کے خلاف بھرپور کاروائی کی گئی ۔انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خلاف جنگ میں ہمارے پاس شکست کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ آگے آگ اور پیچھے کنواں ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے محکمے کی استعداد کار بھی بڑھا رہے ہیں ، لوگوں سے خود رابطے کر رہے ہیں جس سے سامنے آنے والی خامیاں دور کی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعوں میں ذیلی ایڈمنسٹریشن کا ایک سروے بھی ہو گا اور اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب کو بتاؤں گا کہ ہم کس جگہ پر کس طرح کا ڈیٹا بیس بنا رہے ہیں ۔