اسلام آباد(نیوز ڈیسک) مصری معزول صدر محمد مرسی کو دو دیگر مقدمات میں بھی سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جن میں سے ایک میں ا±ن پر غیر ملکی طاقتوں کے لیے جاسوسی کرنے کا اور دوسرے میں 2011ءمیں مبارک کے خلاف بغاوت کے دوران جیل سے فرار ہونے کا الزام ہے۔ اِن دونوں مقدمات کا فیصلہ سولہ مئی کو سنایا جائے گا۔جرمن ٹی وی کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق ماہرین کے خیال میں آئندہ منگل کو سنائے جانے والے فیصلے میں مرسی کے لیے، جو مصر میں پہلے آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں سربراہِ مملکت منتخب ہوئے تھے، موت کی سزا خارج از امکان نہیں ہے کیونکہ جج پہلے ہی ا±ن کی کالعدم جماعت اخوان المسلمون کے رہنماو¿ں کے خلاف سخت فیصلے سنا چکے ہیں۔مرسی کی حکومت کا تختہ ا±س وقت کے آرمی چیف اور موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے تین جولائی 2013ءکو الٹ دیا تھا۔ اس سے پہلے ملک بھر میں مرسی کے ایک سالہ اقتدار کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔مرسی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد نئے حکمرانوں نے مرسی کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاو¿ن شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں چَودہ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے جبکہ ہزاروں کو جیل بھیج دیا گیا۔مصر میں نئی حکومت کے آنے کے بعد سے اب تک بہت سے مقدمات کی تیز رفتاری کے ساتھ سماعت کی گئی ہے اور سینکڑوں افراد کو موت کی سزائیں دی جا چکی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اتنے بڑے پیمانے پر موت کی سزائیں سنانے کو ایک ایسا واقعہ قرار دیا ہے، جس کی ’حالیہ تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی‘۔موجودہ حکومت کی جانب سے ا±ن سیکولر اور آزاد خیال ارکان کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے، جنہوں نے مرسی کے پیشرو حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی قیادت کی تھی۔ اس کے برعکس گزشتہ سال نومبر میں ایک عدالت نے مبارک کے خلاف 2011ءمیں سینکڑوں مظاہرین کی ہلاکت کے ایک مقدمے میں اقدامِ قتل کے الزامات واپس لے لیے۔اگرچہ موجودہ صدر السیسی کی حکومت کو ا±ن مصری باشندوں میں کافی مقبولیت حاصل ہے، جو چار سال سے زیادہ عرصے سے جاری سیاسی بحران سے تھک چکے ہیں تاہم انسانی حقوق کے علمبردار گروپوں کا کہنا ہے کہ السیسی حکومت مبارک کے مقابلے میں کہیں زیادہ جابرانہ ہے۔آئندہ منگل کو مرسی اور چَودہ دیگر ملزمان کے خلاف جس مقدمے کا فیصلہ سنایا جانے والا ہے، ا±س کا تعلق پانچ دسمبر 2012ء کو صدارتی محل کے سامنے تصادم کے واقعات میں تین مظاہرین کی ہلاکت اور متعدد کو جبر و تشدد کا نشانہ بنانے سے ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے نے جائزے میں لکھا ہے کہ مرسی سزائے موت سے بچ بھی گئے تو بھی ا±نہیں طویل عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر سزائے موت سنا دی گئی تو پھر ا±س پر عملدرآمد ہونے کا بھی امکان ہے۔ واضح رہے کہ فیصلہ کوئی بھی ہو، مرسی ا±س کے خلاف اپیل بہر حال کر سکیں گے۔رپورٹ کے مطابق مرسی کے خلاف کوئی بھی سخت عدالتی فیصلہ اخوان المسلمون کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔ السیسی اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ پچاسی سال پرانی اس تاریخ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔