لندن(نیوزڈیسک)ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بحرین کی حکومت پر حقوقِ انسانی کی سنگین خلاف ورزیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چار برس قبل حکومت مخالف مظاہروں کے بعد شروع ہونے والا اصلاحات کا عمل ان خلاف ورزیوں کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔حقوقِ انسانی کی عالمی تنظیم نے یہ بات اپنی ایک رپورٹ میں کہی ہے جو جمعرات کو جاری کی گئی ۔79 صفحات کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحرین میں حکومت مخالف آوازوں کو شدید کریک ڈاو¿ن کا سامنا ہے۔ایمنیسٹی کے مطابق جہاں بحرینی دارالحکومت میں مظاہروں پر پابندیاں عام ہیں وہیں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے والے کارکنوں کو مسلسل پابندِ سلاسل کیا جا رہا ہے جہاں انھیں تشدد اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔بحرین میں فروری 2011 میں ملک کے حکمران سنّی خاندان کے خلاف اکثریتی شیعہ آبادی کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور یہ مظاہرین مزید سیاسی حقوق دیے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔بحرین نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی فوج کی مدد سے ان مظاہروں کو کچل دیا تھا تاہم اس کے باوجود حکومت کے خلاف بے چینی ختم نہیں ہوئی تھی۔ حکومت مخالف تحریک کی تحقیقات کے بعد ملک کے سیاسی نظام کی اوور ہالنگ اور سکیورٹی فورسز کی جانب سے بدسلوکی کے معاملات کی تحقیقات کی سفارشات سامنے آئی تھیں۔ان سفارشات کی روشنی میں بحرینی حکام نے کچھ اصلاحات کی ہیں اور وزارتِ داخلہ میں محتسب کا عہدہ بھی تخلیق کیا جس کا کام پولیس کی بدسلوکی کی شکایات سننا ہے۔تاہم ایمنٹسی انٹرنیشنل نے کہاکہ بحرینی حکومت کے اقدامات ناکافی ہیں۔مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کےلئے تنظیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر سعید بومیدوہ نے کہا کہ بحرینی حکام کی جانب سے دنیا کو دکھائی جانے والی ترقی اور اصلاح پسند مملکت کی شبیہ کے پیچھے ایک بدنما سچ پوشیدہ ہے۔انہوںنے کہاکہ حکومت مخالف تحریک کے آغاز کے چار سال بعد، بحرین میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے اختیارات کا غلط استعمال، عوام سے بدسلوکی اور ان پر دباو¿ ڈالنے کا عمل عام ہے۔