اسلام آباد(نیوز ڈیسک)روس نے ایران کو جدید ترین میزائل نظام فراہم کرنے پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ امریکہ نے ماسکو کے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اقوام متحدہ کی طرف سے سنہ دو ہزار دس میں ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے عائد کی پابندیوں کے تحت روس نے ایران کو ایس 300 میزائلیوں کی فراہمی روک دی تھی۔دوسری جانب وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے اپنے روسی ہم منصب سے فون پر بات کی اور اس ایشو پر بات کی۔وائٹ ہاوس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے جان کیری کی اپنے روسی ہم منصب سے فون پر بات کی زیادہ تفصیلات نہیں بتائیں اور کہا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں روس جیسے ممالک کے ساتھ رابطے اور رضا مندی کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔تاہم امریکی وزارت دفاع کے ترجمان نے روس کے اس قدم پر کہا کہ اس بارے کو باضابطہ طور پر سفارتی سطح پر اٹھایا جا رہا ہے۔روس کے صدر نے ایران اور پانچ مغربی طاقتوں کے درمیان اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کے بعد ایران کو ایس 300 میزائلوں کی فروخت کی اجازت دے دی ہے۔عالمی اقتصادی پابندیوں کے باوجود ایران اور روس کے درمیان اچھے تعلقات رہے ہیں۔ایران کو روسی ساخت کے ان جدید ترین میزائلوں کی فروخت کے معاہدے پر اسرائیل اور امریکہ کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔اسرائیل اور امریکہ کا خیال تھا کہ یہ میزائل حاصل کرنے سے ایران کو اپنی جوہری تنصیبات کے تحفظ میں بہت مدد ملے گی اور فضا سے فضا میں مار کرنے والے ان میزائلوں سے اس کا دفاع بہت مضبوط ہو جائے گا۔ان میزائلوں کی فروخت کے معاہدے کی منسوخی کے بعد ایران نے اربوں ڈالر ہرجانے کا دعوی دائر کیا تھا۔روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے ایک بیان میں کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے روس نے میزائلوں کی فروخت کے معاہدے کو رضاکارانہ طور پر روک دیا تھا۔روس کی وزارتِ دفاع نے انٹرفیکس نیوز ایجنسی سے کہا ہے کہ روس ان میزائلوں کی فروخت کو جلد از جلد مکمل کرنے کے لیے تیار ہے۔ایران کے نائب وزیر دفاع نے ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے ان میزائلوں کی فروخت سے روس اور ایران کے تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔