اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ نواز شریف سے زیادہ تر اختلافات پچھلےادوار میں پالیسی کی وجہ سےآئے، خاندانی پس منظر فوجی ہونے پر فخر ہے، سوشل نہیں ہوں اس لیے مخالفین مجھے مغرور کہتے ہیں۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے نجی ٹی وی چینل کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا، چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت وقت نے میری بہت مخالفت کی لیکن میرےحلقے نے میرا
بھرپور ساتھ دیا۔خود کو انتہائی گناہ گارانسان سمجھتا ہوں، دشمنی بھی لمبی نبھاتاہوں اور دوستی بھی، فوج سے ہماری کوئی لڑائی نہیں اور نواز شریف کی رخصتی میں بھی فوج کا کوئی کردار نہیں۔جب میں نے محسوس کیا کہ مجھےجان بوجھ کر مشاورت سے الگ رکھاجارہا ہے تو اس کا ذکر کابینہ میں کیا، بہت سی چیزوں کا پوسٹ مارٹم کیا لیکن نوازشریف سے اختلافات کا ذکر میں نے کبھی نہیں کیا۔میں سمجھتا ہوں کہ سچ بات کی جائے خوشامد نہیں، تلخ سے تلخ بات کی کبھی نوازشریف کےچہرے ناراضگی نہیں آئی، حالیہ 3 سے 4 سال کے دوران نوازشریف سے اختلافات آئے۔چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے محاذآرائی کرکے مقاصدحاصل نہیں کیے جاسکتے، محاذ آرائی سے ہم اپنی پوزیشن بہتر نہیں بلکہ اور کمزور کریں گے، محاذآرائی کر کے کوئی سیاسی مقاصد حاصل نہیں کیے جا سکتے۔اب بھی وقت ہے کہ محاذ آرائی کو ترک کر کے ملک کو بین الاقوامی خطرات سے بچایا جاسکے، میری رائے ہے کہ ابھی پانی سر کے قریب ہے۔ڈان لیکس پر ابتدائی رپورٹ آرمی نے دی تھی اور اس کی وزیراعظم سکریٹریٹ کے تحت آئی بی نے تصدیق کی، ڈان لیکس پرحکومت کےحق میں صرف میں بولا۔اسحاق ڈار نے ڈان لیکس کی انکوائری میں مجبوری ظاہرکی، ان کی خواہش تھی کہ ڈان لیکس انکوائری میں اور اسحاق ڈار کریں، میں نے آئی بی کی رپورٹ پر زبانی رپورٹ
دی۔ایک سوال کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ نظربندی میں پرویز مشرف نے ملنے کی درخواست کی تھی میں نےانکارکیا، پرویز مشرف نے میرے حلقےکو دو حصو ں میں تقسیم کردیا۔ایان علی کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ایان علی کا کیس وزارت داخلہ نہیں بلکہ وزارت خزانہ کے پاس تھا،
وہ ہمیں لکھتے تھے کہ ای سی ایل پر نام ڈال دیں ہم ڈال دیتے تھے جب نکالنے کا کہتے تھے تو نکال دیتے تھے۔ڈاکٹرعاصم کے معاملےمیں بھی میرا کوئی کردارنہیں تھا، رینجرز نے کراچی میں امن کیلئے بہت بڑاکام کیا ہے۔