واشنگٹن(آن لائن)امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا ہے کہ افغانستان میں اس وقت گیارہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں جبکہ مزید چار ہزار امریکی فوجی افغانستان بھیجے جائیں گے۔حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات امریکی افواج کی اس مجموعی تعداد میں معمول کے دستوں کے ساتھ، عارضی اور خفیہ یونٹس بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ اس سے پہلے افغانستان میں امریکی افواج کی تعداد 8400 ظاہر کی گئی تھی۔پینٹاگون کی جانب سے یہ اعدادوشمار ایک ایسے موقع پر سامنے آئے
جب کچھ روز قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے بارے میں اپنی حکمتِ عملی کا اعلان کیا ہے۔پینٹاگون کا کہنا ہے کہ شفافیت بڑھانے کے لیے افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کا اعلان کیا گیا ہے لیکن پینٹاگون نے عراق اور شام میں تعینات امریکی افواج کی تعداد ظاہر نہیں کی ہیں۔پینٹاگون کے جوائینٹ سٹاف ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل نیتھ میکنز نے کہا کہ زیادہ افواج بھیجنے کی وجہ سے ایسا نہیں کیا گیا بلکہ ہم اس بارے میں گڈ مڈ رپورٹنگ کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں۔امریکہ کے سیکریٹری دفاع جم میٹس نے بھی شورش زدہ علاقوں میں تعینات دستوں کی گنتی کے طریقہ کار پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور انھوں نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں مزید فوجی دستے بھیجنے سے پہلے وہاں موجود فوجیوں کی اصل تعداد جاننا چاہتے ہیں۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے افغانستان کے بارے میں نئی پالیسی کے تحت امریکی افواج کی تعداد میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور انڈیا کے بارے میں اپنی انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔افغانستان کے بارے بات کرتے ہوئے کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکی افواج افغانستان میں رہیں گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے
جس میں ڈیڈ لائن نہیں ہوں گی۔امریکہ کی نئی پالیسی کے جواب میں طالبان نے کہا ہے کہ اگر امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج واپس نہ بلوائیں تو افغانستان امریکی افواج کے لیے ’ایک اور قبرستان ثابت ہو گا۔