ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

والد بیٹیوں سے نفرت کرنیوالے انسان ہیں۔۔ بغاوت کر کےگھر چھوڑ دینے والی کنگنا رناوت بالی ووڈ کی سپرہیروئن کیسے بنی؟

datetime 30  اگست‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف بالی ووڈ اداکارہ کنگنا رناوت کا شمار بالی ووڈ کے ان اداکاروں میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے بل بوتے پر فلم انڈسٹری میں جگہ بنائی اور بالی ووڈ کی بلندیوں کو چھوا۔ کنگنا رناوت ہماچل پردیش کے ایک چھوٹے سے گائوں منڈی کے راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں جہاں پر عورتوں کے حوالے سے انتہائی سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے،

بیٹیوں پر بیٹوں کو فوقیت حاصل ہے اور عورتوں کو اپنے گھروالوں کے سامنے بھی گھونگھٹ نکال کر بیٹھنا پڑتا ہے، یہ باتیں کنگنا رناوت نے بھارتی ٹی وی کو دئیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں بتائی ہیں۔ ان سے جب سوال پوچھا گیا کہ خواتین کے حوالے سے جب اتنی پابندیاں تھیں تو آپ بالی ووڈ کی سپرسٹار کیسے بن گئیں تو ان کا کہنا تھا کہ میرے والد مجھے ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے جبکہ میرے بھائی کو کمانڈو بننے کا شوق تھا ، ابو اس کے لئے کھلونا پستول اور دیگر چیزیں لے کر آتے تھے۔ جب میں چندی گڑھ کالج میں گئی تو وہاں میں نے منی سکرٹ پہننا شروع کردی جس پر سارے خاندان میں ہنگامہ بھرپا ہوگیا لوگ اور رشتہ دار میرے ابو کو فون کرکے میرے حوالے سے طرح طرح کی خبریں دیتے تھے۔ کالج سے جب میں ایک بار گاؤں گئی تو میری ماں نے غصے اور نفرت سے مجھے کہا کہ تم ایک بدتمیز لڑکی ہو۔کنگنا رناوت کا مزید کہنا تھا کہ میں آزاد زندگی گزارنا چاہتی تھی میں والدین، بھائیوں، خاوند اور بیٹوں کے بکھیڑے سے آزاد ہو کر اڑنا چاہتی ہوں اس لئے میں نے اپنے خاندان اور روایات سے بغاوت کی مجھے اپنے خاندان پر کبھی بھی فخر نہیں ہوا۔ مجھے ایسے لوگوں پر کبھی فخر نہیں ہوتا جو لوگ عورتوں کو دبا کر رکھتے ہیں ، میری بغاوت کے بعد میرے گاؤں کے لوگوں نے مختلف انداز سے سوچنا شروع کردیا ہے،

لڑکیاں اپنی مرضی سے جینا سیکھ چکی ہیں جبکہ نوجوان چارپائیاں توڑنے کی بجائے کام کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں ، گاؤں کے لوگ میرے حوالے سے کہتے ہیں کہ میں ان جیسی کیوں نہیں ہوں ، شکل و صورت میں ان جیسی ہونے کے باجود ان کے جیسا رویہ کیوں نہیں ہے؟ بڑے شہروں کے لوگ دولت کی ہوس میں اندھے ہوکر اسی کے بارے میں سوچتے ہیں جبکہ چھوٹے

شہروں میں لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ لوگ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے۔اپنے لہجے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ آپ کا لہجہ انگریزوں والا ہو اسے ہی فلم انڈسٹری میں لایا جاتا ہے میں انگریزی ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہوں لیکن میں اپنے ہماچل پردیش والے لہجے پر بے حد خوش ہوں اور اسی پر فخر محسوس کرتی ہوں ۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…