واشنگٹن(مانیٹرنگ ڈیسک) ڈونلڈ ٹرمپ کو لینے کے دینے پڑ گئے،پاکستان نے امریکی حکام کی نیندیں اُڑ گئیں ، پاکستان افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی ایلس ویلز کے دورہ پاکستان ملتوی کر دیا گیا،امریکی سفارتی ترجمان نے نے اپنے بیان میں بتایا کہ یہ دورہ حکومت پاکستان کی درخواست پر ملتوی کیا گیا۔ تاہم دونو ں حکومتیں مشاورت کے بعد نئی تاریخ کا اعلان کریں گئے.واضح رہے کہ ایلس ویلز کے دورے کے شیڈول میں
کی جانے والی یہ تبدیلی گذشتہ ہفتے کے دوران پاکستان کی جانب سے کیا جانے والا اس نوعیت کا دوسرا مطالبہ ہے۔اس سے قبل پاکستان وفاقی وزیر خارجہ خواجہ اصف کے دورہ واشنگٹن کو ملتوی کرنے کا مطالبہ بھی کرچکا ہے، جنہیں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کی دعوت پر 25 اگست کو امریکی دارالحکومت پہنچنا تھا۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کونسل کی سینئر عہدےدار لیزا کرٹس کی سربراہی میں آنے والے امریکی وفد کا دورہ بھی ملتوی ہوجائے گا۔جنوبی ایشیاءکے لیے نئی امریکی پالیسی کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنے والی لیزا کرٹس کا آئندہ ہفتے دورہ اسلام آباد متوقع تھا۔دوسری جانب کابینہ، خارجہ امور اور سیکیورٹی سطح پر تجویز کردہ مذاکرات کا مقصد اس بات کی نشاندہی کرنا ہے کہ امریکا اور پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ کی 21 اگست کی تقریر میں واضح کی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنے تعلقات کی دوبارہ تعمیر کس طرح کرسکتے ہیں۔اس حکمت عملی میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کی جانب سے امریکی اور افغان فورسز پر ہونے والے مبینہ سرحد پار حملوں کو نہیں روکتا تو تادیبی کارروائی کی جائے گی۔قبل ازیں ہفتہ (26 اگست) کے روز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ ایلس ویلز 28 اگست کو اسلام ا?باد پہنچیں گی جبکہ اس دوران ان کی اعلیٰ سیاسی و عسکری حکام سے ملاقاتیں طے تھیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ ماہ کے دوران یہ ایلس ویلز کا دوسرا پاکستان کا دورہ ہوتا، وہ 3 اور 4 اگست کو اپنے ’تعارفی دورے‘ میں وزیر خارجہ خواجہ آصف، سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، وزیر خزانہ اسحٰق ڈار اور چیئرمین آف دا جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر حیات سے ملاقات کرچکی ہیں۔ایک جانب جہاں امریکی حکمت عملی پر مشاورت کے لیے اسلام آباد اپنے اتحادیوں بالخصوص چین سے حمایت طلب کرچکا
ہے، واشنگٹن کے مبصرین خبردار کرتے ہیں کہ نئی پالیسی پاکستان اور امریکا کے درمیان فاصلہ بڑھانے کا سبب بنے گی۔سینئر امریکی حکام نے نیوز بریفنگ میں اس حکمت عملی کے بعد اسلام آباد کی جانب سے افغانستان تک امریکی سپلائی کو روکنے کے امکان کا بھی ذکر کیا۔انہوں نے اعتراف کیا کہ واشنگٹن اب بھی پاکستان سے گزرنے والے روابط کے راستوں پر انحصار کرتا ہے جبکہ امریکی صدر کا افغانستان میں امریکی
فوجی تعداد میں اضافے کا فیصلہ اس سپلائی لائن کی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے۔ اس وجہ سے فوری حکمت عملی بدلنے سے بہت سارے مسائل کا سامنا کرناپڑ سکتا ہے۔