اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) موبائل فون کی جس قدر خوبیاں ہیں اس قدر اس کی خامیاں اور نقصانات بھی ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ موبائل فون نے قوم کے بچوں کو خراب کر دیا ہے، اس حوالے سے ایسا قانون بنانا چاہیے کہ 18سال سے کم عمر بچوں کے موبائل کے استعمال پر پابندی ہو۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اغوا اور زیادتی کے ایک مقدمے
کی سماعت اس وقت دلچسپ صورتحال اختیار کر گئیجب ملزم عبد الرحمان انیل نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے دو سگی بہنوں کے ساتھ شادی کرنے کے لئے 2 الگ الگ مذاہب اختیار کئے، جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ملزم سے کہا کہ تم نے شادی کے لئے مذہب کا استعمال کیا اس پر تمہیں شرم آنی چاہئے، اس موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے معززجج نے ملزمان سے استفسار کیا کہ ان کے جھوٹے بیان کی وجہ سے جو لوگ جیل میں ہیں اس کا ازالہ کون کرے گا؟ سماعت کے دوران اغوا اور زیادتی کا ڈرامہ کرنے والی ملزمہ سمیرا نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے میڈیا کو دیکھ کر اغوا اور زیادتی کی کہانی بنائی تھی۔ ملزمہ نے کہا کہ اس نے اپنے بہنوئی کے ساتھ شادی کر لی ہے اور اس کی بڑی بہن بھی اس کے خاوند کی تاحال بیوی ہے، جس پر عدالت نے ملزمہ سمیرا سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ تمہیں اپنے بہنوئی سے شادی کرتے ہوئے ذرا بھی شرم نہیں آئی؟ اس کے جواب میں ملزمہ نے خاموشی اختیار کر لی۔ عدالت نے زیادتی کے جھوٹے الزام میں گرفتار ملزمان کی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو حکم دیا کہ وہ انیل اور سمیر ا کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمے کا اندراج کرے۔ عدالت کے حکم پر دونوں کو احاطہ عدالت میں ہی ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کر لیاگیا۔