یہ 1960 کا ذکر ہے جب ایک گوری چٹی ، گول چہرے پربڑی بڑی آنکھوں والی اکتیس سالہ خاتون کراچی کی میکلوڈ روڈ پر سٹی ریلوے سٹیشن کے عقب میں واقع “کوڑھیوں کی بستی” کو حیرت اور دکھ کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ اس بستی میں سماج کے دھتکارے ہوئے جذامی اپنی زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے ۔۔۔۔ سماج نے ان سے یوں منہ موڑ رکھا تھا جیسے نودولتیے اپنے غریب رشتہ داروں سے قطع تعلق کرتے ہیں۔ اس گوری
عورت کی خوبصورت آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ اس نے وہیں کھڑے یہ فیصلہ کر لیا کہ اب اسے یہاں کہیں اور نہیں جانا، واپس اپنے ملک بھی نہیں۔9 ستمبر 1929 کو جرمنی کے شہر لیپزگ میں پیدا ہونے والی رُتھ کیتھرینا مارتھا فائو کے خاندان کو دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی تسلط والے مشرقی جرمنی سے فرار پر مجبور ہونا پڑا۔ مغربی جرمنی آکر رُتھ فائو نے میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا آغاز کیا اور 1949 میں “مینز” سے ڈگری حاصل کی۔ زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش ڈاکٹر رُتھ کو ایک مشنری تنظیم “دختران قلب مریم” تک لے آئی اور انہوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا مقصد حیات قرار دے لیا۔ 1960 کے دوران اس مشنری نے ڈاکٹر رُتھ فائو کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔کراچی میں کوڑھیوں کی اسی بستی میں ڈاکٹر رُتھ فائو نے جذام کے مریضوں کے لیے ایک فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ “میری ایڈیلیڈ لیپرسی سنٹر” کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔ مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد
کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رُتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رُتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ
راولپنڈی میں بھی کئی ہسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سنٹر قائم کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔ڈاکٹر رُتھ فائو
کی گرانقدر خدمات پر حکومت پاکستان ، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔ڈاکٹر رُتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی ہیں اور گزشتہ 56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔انہیں پاکستان کی”مدر ٹریسا” بھی کہا جاتا ہے۔پاکستانی مدرٹریسا اورجذام کے مریضوں کے
لیے کام کرنیوالی ڈاکٹر رتھ فائو کراچی کے نجی اسپتال میں شدید علالت کے باعث 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں جو طویل عرصے سے سانس کی تکلیف اورعارضہ قلب میں مبتلا تھیں۔ڈاکٹر روتھ فائو کی آخری رسومات 19 اگست کو سینٹ پیٹرکس چرچ صدر میں ادا کی جائیں گی۔میری ایڈیلیڈ سوسائٹی آف پاکستان کی سربراہ اور ملک میں جذام کے مرض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنے والی جرمن خاتون ڈاکٹرروتھ فاو کی
گزشتہ کئی ماہ سے طبیعت ناساز تھی، وہ 2ہفتے سے نجی اسپتال میں زیر علاج تھیں۔سی ای او میری ایڈیلیڈ سینٹر ڈاکٹرمارون لوبونے بتایاکہ ڈاکٹرروتھ فائو کاانتقال رات ساڑھے 12 بجے ہوا ۔سن 1960 کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر روتھ فائو کو پاکستان بھجوایا، یہاں آکر انہوں نے جذام کے مریضوں کی حالت زار دیکھی تو واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا، انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ جو اب آئی
آئی چندریگر روڈ کہلاتا ہے اس پر کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹے سے فری کلینک سے اپنی خدمات کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔میری ایڈیلیڈ لیپروسی سینٹر کے نام سے قائم ہونے والا یہ شفاخانہ جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا، مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے
والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر روتھ فائو ہی نے دی۔جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر روتھ نے پاکستان کے دور افتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی، پاکستان میں جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے انہوں نے پاکستان کے علاوہ جرمنی
سے بھی بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سینٹرقائم کیے۔ان کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے اس موذی مرض کا خاتمہ ممکن ہوا اور اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو ایشیا کے ان اولین ممالک میں شامل کیا جہاں جذام کے مرض پر کامیابی کے ساتھ قابو پایا گیا۔حکومت نے 1988 میں ان کو پاکستان کی شہریت دے
دی، ڈاکٹر روتھ فائو کی گراں قدر خدمات پر حکومت پاکستان، جرمنی اور متعدد عالمی اداروں نے انہیں اعزازات سے نوازا جن میں نشان قائد اعظم، ہلال پاکستان، ہلال امتیاز، جرمنی کا آرڈر آف میرٹ اور متعدد دیگر اعزازت شامل ہیں۔آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا، ڈاکٹر روتھ فائو جرمنی اور پاکستان دونوں کی شہریت رکھتی ہیں اور گزشتہ 56 برس سے پاکستانیوں کی خدمت میں مصروف عمل ہیں،
انہیں پاکستان کی مدر ٹریسا بھی کہا جاتا ہے۔ڈاکٹرروتھ کیتھرینا مارتھا فائو ویسے تو جرمنی میں پیدا ہوئیں لیکن اپنی جوانی پاکستان کی خدمت میں وقف کردی، 60 کی دہائی میں پاکستان میں جزام کے ہزاروں مریض تھے، اس وقت سہولتیں اور علم کی کمی کی وجہ سے جزام یا کوڑھ کو لاعلاج اورمریض کو اچھوت سمجھا جاتا تھا۔