پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز بیٹسمین انضمام الحق کہتے ہیں‘ 2006 ءمیں ویسٹ انڈیز کی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی تھی‘ کراچی میں تیسراٹیسٹ ہونا تھا‘ محمد یوسف نے برائن لارا کو کھانے پر بلایا‘ مجھے اور چند اور دوستوں کو بھی کھانے کی دعوت دی‘ان احباب میں کراچی کے ایک بزرگ شیخ ہاشم صاحب بھی وہاں تشریف لائے ہوئے تھے‘ شیخ ہاشم صاحب امریکی ہیں‘یہ تیس پینتیس سال پہلے مسلمان ہوئے تھے‘
انہوں نے محمد یوسف اور مجھ سے مشورہ کیا کہ برائن لارا کے سامنے اپنے دین کی دعوت رکھتے ہیں‘ میں نے کہا اچھی بات ہے‘ ہم نے بات چیت شروع کی‘ اپنے دین کی باتیں بتانا شروع کیں‘ ہم نے بتایا کہ ہمارا دین والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے‘ والدین کی فرمانبرداری میں اللہ نے جنت رکھی ہے‘ ہمارا دین ہمیں ہمسایوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ کرنے کا حکم دیتا ہے اور پڑوسی کو ستانے والے کو جہنمی قرار دیتا ہے‘ ہمارا دین ہمیں برائی کے بدلے اچھائی کا حکم دیتا ہے‘ جو تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑنے کا حکم دیتا ہے‘غریبوں سے اچھے سلوک کا حکم دیتا ہے‘ حق پر ہونے کے باوجود جو شخص جھگڑا چھوڑ دے اسے جنت کی بشارت دیتا ہے‘ ہم نے اس طرح اپنے دین کی دعوت برائن لارا کے سامنے رکھی‘ برائن ان سب باتوں سے بہت متاثر ہوا‘ اس نے کہا کہ یہ تو بہت اچھا دین ہے‘ یہ سب باتیں بھی بہت اچھی ہیں لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے‘ ہم نے کہا جی بتائیں‘ برائن لارا کہنے لگے‘ مجھے وہ مسلمان دکھائیں جو آج ان باتوں پر عمل پیرا ہیں‘ جو ان باتوں پر عمل کرتے ہیں اور جو واقعی میں سچے اور کھرے مسلمان ہیں‘ جن کی ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں مجھے وہ مسلمان دکھائیں‘ہم نے یہ سوال سنا تو ہمارے سر جھک گئے















































