لندن(آئی این پی )مستقبل میں بھارت کے لئے بین الاقوامی چیلنجز میں سے سب سے بڑا چیلنج چین کے عروج اور بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے نمٹنا ہے ، بھارت کی فوجی صلاحیت بمقابلہ چین کافی کم ہے ، بھارت کو چینی معیشت کے سائز میں متفاوت کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا،پانچ سالوں میں بھارت بحریہ میں 8بڑے جنگی جہازوں کو شامل کیا گیا اس کے برعکس چینی بحری بیڑے میں 30بڑے جنگی جہازوں کی شمولیت ہوئی،
چین نے اپنی فضائی طاقت میں بھی بھارت سے 100فیصد اضافہ کیا، ، طاقت کا یہ عدم توازن تجارت ، سرمایہ بہاؤ، تکنیکی صلاحیتوں ، فوجی طاقت اور وسائل تک رسائی میں صاف دکھائی دیتا ہے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق عسکری وسیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کو چین کی برابری حاصل کرنے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے رہنے کلئے ابھی بہت زیادہ کام کرنا ہوگا ، بھارت کی فوجی صلاحیت چین کے مقابلہ میں بہت ہے ، بھارت کو اپنی معیشت میں بھی چین سے مقابلہ کیلئے انتہائی درجہ کی اٹھان کی ضرورت ہے ۔ حالیہ برسوں مٰں چین نے خود کو عالمی طاقت ثابت کرنے کے لئے جس قدر تیزی سے منازل طے کی ہیں ان کی مثال نہیں ملتی ۔ بھارت اور چین میں طاقت کا عدم توازن انتہائی واضح ہے ۔ طاقت یہ عدم توازن زندگی کے ہر شعبہ مثلاً تجارت، سرمایہ کاری ، تکنیکی صلاحیتوں ، فوجی طاقت اور وسائل تک رسائی میں واضح دکھائی دے رہا ہے ۔بھارت کو چین کی طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو قابل بنانا ہوگا۔چینی کمپنیوں نے بھارتی مارکیٹ پر اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے ،چین بین الاقوامی نقل وحمل پر بھی اپنی پالیسیوں سے کامیابی سے منازل طے کررہا ہے ۔ گزشتہ پانچ سالوں میں بھارت بحریہ میں 8بڑے جنگی جہازوں کو شامل کیا گیا جبکہ ان کی جنگی صلاحیتوں پر بھی کس حد تک سوالیہ نشانہ ہیں ۔
اس کے برعکس چینی بحری بیڑے میں 30بڑے جنگی جہازوں کی شمولیت ہوئی ، چین نے اپنی فضائی طاقت میں بھی بھارت سے 100فیصد اضافہ کیا بلکہ چین مقامی طور پر فضائی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے بھی قابل ہوچکا ہے جس کی مثال اپنا پانچواں لڑاکا بیڑہ تیار کرنا ہے ۔ تبت میں ریلوے لائنوں اور سڑکوں کے جال سے چین کی رسائی آسان جبکہ بھارتی فودجی امداد آج بھی گدھے گھوڑوں یا فضائی ذرائع سے پہنچتی ہے ۔
بھارت کے اپنے تمام پڑوسیوں کیساتھ تعلقات میں کشیدگی یا کسی حد تک تجارتی تعلقات ہیں جبکہ چین کے اپنے سب ہی پڑوسیوں کے ساتھ نہ صرف تجارتی بلکہ فوجی تعلقات بھی ہیں ۔