حیدر آباد دکن انڈیا کی ایک ریاست تھی‘ اس ریاست میں آصفیہ سلطنت کے نام سے مسلمانوں کی ایک بادشاہت قائم تھی۔ اس بادشاہت کا حکمران نظام کہلاتا تھا اور اسے عرف عام میں نظام دکن یانظام حیدر آباد کہا جاتا تھا۔ اس سلطنت کے آخری نظام کا نام میر عثمان علی خان تھا‘نظام صاحب اپنے دور کے امیر ترین حکمران تھے لیکن ساتھ ہی یہ انتہائی کنجوس بلکہ بخیل واقع ہوئے تھے۔
ان کی دولت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں کو باسٹھ کروڑ روپے کی امداد دی تھی اور یہ اس دور کا سب سے بڑا ڈونیشن تھا۔ نظام صاحب کو دولت جمع کرنے کا بے انتہا شوق تھا‘ ان کا خزانہ سو کمروں پر مشتمل تھا اور ہر کمرے میں فرش سے لے کر چھت تک سونے‘ چاندی‘ جواہرات اور ہیروں کا انبار لگا ہوتا تھا لیکن اس قدر مال و دولت کے باوجودنظام حیدر آباد بے انتہا کنجوس تھے‘ وہ کپڑے کی سستی سی ٹوپی پہنتے تھے اور اس ٹوپی کو بھی دھوتے نہیں تھے یہاں تک کہ دیکھنے والوں کواس کے کناروں پر میل کی تہہ نظر آتی تھی۔ وہ اپنی دولت کو اپنی اولاد تک کے ساتھ شیئر نہیں کرتے تھے چنانچہ شہزادوں کی حالت بادشاہ سے بھی زیادہ پتلی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے نظام حیدر آباد سے درخواست کی کہ آپ اپنے خزانے کا ایک حصہ سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کرا دیں اس سے پاکستان کی معاشی حالت ٹھیک ہو جائے گی لیکن نظام نے انکار کر دیا‘قائداعظمؒ کی یہ آفر ٹھکرانے کے چند ماہ بعد انڈیا نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا‘ ریاست پر قبضہ کر لیا‘ نظام اور اس کے خاندان کو گرفتار کر لیا اور ان کا سارا خزانہ ضبط کر لیا۔ یہ اتنی بڑی دولت تھی کہ انڈیا کئی سال تک اس دولت کے ذریعے سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دیتا رہا۔نظام کی جب ساری دولت ضبط ہوئی تو انہیں اس وقت احساس ہوا کہ اگر بروقت فیصلہ نہ کیا جائے توانسان کی بڑی سے بڑی کامیابی اس کی ناکامی ثابت ہوتی ہے ۔نظام آخری عمر میں کہتا تھا کاش میں اپنی دولت کا ایک حصہ پاکستان میں رکھوا دیتا تو آج میں یوں کسمپرسی کے عالم میں زندگی نہ گزار رہا ہوتا۔
بروقت فیصلے نہ کر سکنے والے لوگوں کے ہاتھ میں پچھتاوے اور کاش ایسا ہو جاتا قسم کے فقروں کے علاوہ کچھ نہیں آتا لہٰذا قومیں ہوں یا انسان ہوں انہیں اس وقت فیصلہ کرنا چاہئے جب وہ فیصلہ ہونا چاہئے ورنہ دوسری صورت میں ٹرین اور فیصلے کسی کا انتظار نہیں کرتے۔
فیصلے اگر بروقت کر لئے جائیں تو انسان خواری اور پریشانی دونوں سے بچ جاتا ہے‘ سیاسی غلطیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے‘ یہ ٹی بی کے مرض کی طرح ہوتی ہیں‘ اس کا شروع میں علاج کر لیا جائے تو انسان تندرست ہو جاتا ہے ورنہ دوسری صورت میں بیماری ناقابل علاج ہو جاتی ہے۔