راولپنڈی (آئی این پی)بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رحم کی اپیل کردی۔جمعرات کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق اپنی اپیل میں کلبھوشن نے پاکستان میں جاسوسی، دہشت گردی اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان پر پشیمانی کا اظہار کیا ہے ۔کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف سے
دہشت گردی کی کارروائیوں پر معافی مانگتے ہوئے رحم کی درخواست کی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ کلبھوشن یادیو نے اپنی سزائے موت کے خلاف ملٹری اپیلٹ کورٹ میں بھی نظرثانی درخواست دائر کی تھی، جسے مسترد کردیا گیا تھا۔آرمی چیف اگر اپیل مسترد کرتے ہیں تو آخری اپیل صدر کو بھیجی جاسکتی ہے۔آئی ایس پی آر کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی نئی ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے، جس کا مقصد دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارت کے مذموم مقاصد سے آگاہ کرنا ہے۔اعترافی بیان کی نئی ویڈیو میں بھارتی جاسوس نے کہا کہ میں کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو ہوں، میرا ہندوستانی نیوی کا نمبر 41558 زولو ہے، میں بھارتی بحریہ کا کمیشنڈ افسر ہوں جبکہ میرا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل ہے۔ میں پاکستان کے بحری اثاثوں سے متعلق معلومات کے حصول کی غرض سے دو مواقع پر کراچی میں 2005 اور 2006 میں جاچکا ہوں، جس کے نتیجے میں میں نے کراچی کے اطراف کے علاقوں میں پاک بحریہ کی ساحلی علاقوں پر تنصیبات اور اثاثوں اور ان کے علاوہ جو معلومات حاصل کرسکا حاصل کیں۔ بھارتی خفیہ ایجنسی را نے یہ محسوس کرلیا تھا کہ 2014 میں نریندر مودی کی حکومت ہوگی، لہذا میری خدمات را کے سپرد کردی گئی، میری بنیادی ذمہ داری مکران کے ساحلی علاقوں، کراچی، بلوچستان، کوئٹہ اور تربت کے علاقوں میں
ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پر نظر رکھنا، ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس سلسلے میں تمام انتظامات احسن طریقے سے نبھانا تھی۔کلبھوشن یادیو نے کہا کہ اس سلسلے میں میری ملاقات انیل کمار اور الوک جوشی سے ہوئی، جس میں کراچی اور مکران کوسٹ میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی کی گئی۔اس نے کہا کہ میں ایران کے شہر چاہ بہار میں رہا اور وہاں کامنڈا ٹریڈنگ کمپنی کے نام سے حسین مبارک پٹیل کے نام سے کاروبار کرتا رہا، یہ ایک خفیہ اور سفارتی آپریشن تھا جس کا مقصد بلوچ مزاحمت کاروں اور دہشت گردوں سے ملاقات کرنا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں مقصد ہمیشہ اہداف اور مقاصد کو سامنے رکھ کر مزاحمت کاروں کو دہشت گردانہ سرگرمیاں سر انجام دینے سے متعلق آگاہ کرنا اور ان کی طرف سے کسی بھی مدد کی پوچھ گچھ کرکے را کو مطلع کرنا تھا۔
بھارتی جاسوس کا کہنا تھا کہ اس بار میرا پاکستان آنے کا مقصد بلوچ عسکریت پسندوں ( بی ایل اے/ بی آر اے) کی قیادت سے مل کر مکران کوسٹ سے ساحلی پٹی تک 30 سے 40 را اہلکاروں کو گھسانا اور ان کو تیار کرنا، جن کی مدد سے مکران کوسٹ کی ساحلی پٹی پر عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے ساتھ مل کر دہشت گردانہ کارروائیاں کرنا تھا۔انہوں نے کہا کہ بنیادی مقصد را اہلکاروں کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی کو یقینی بنانا تھا تاکہ وہ بلوچ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو فوجی انداز میں انجام پر پہنچا سکیں، بلوچستان کے سمندری علاقے میں کوئی تحریک نہیں تھی، سو اس لیے مقصد تھا کہ بلوچ عسکریت پسندوں کا ایک ایسا گروہ تیار کیا جائے جس کی مدد سے ساحلی علاقوں اور خطے کوئٹہ اور تربت اور جہاں بھی را حکم دے وہاں کارروائیاں کی جاسکیں۔
اسکا کہنا تھا کہ جب میں نے را کے لیے کام کرنا شروع کیا تو میری ترجیح کراچی اور بلوچستان تھی، سب سے پہلے اس بات پر غور کیا گیا کہ ان علاقوں میں جو بھی عسکریت پسند موجود ہیں، انہیں مالی مدد کے علاوہ ان تک سمندری راستے کے ذریعے اسلحہ، گولہ اور بارود پہنچانے کو یقینی بنایا جائے۔کلبھوشن نے کہا کہ میرا تعلق بحریہ سے ہے، اور مجھے یہ کام دیا گیا کہ کسی طریقے سے اپنے لوگوں کو بذریعہ سمندر یہاں پہنچایا جائے، گوادر، جیونی یا مکران کے قریب کسی بھی بیلٹ پر جہاں آسانی سے ہوسکے، اس کا مقصد یہ تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری کے ذریعے پاکستان سے لے کر چین تک جتنی بھی راہداری ہے اس کو نقصان پہنچایا جائے، ا