حضرت سیّدنا جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رات میں نے حضرت سیّدنا سَرِی سَقطی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں قیام کِیا۔جب رات کا کچھ حِصّہ گُزر گیا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا:” اے جنید کیا تم سو گئے؟ ”میں نے عرض کی:” حضور! میں جاگ رہا ہوں۔ ”فرمایا: ” ابھی ابھی میں نے خواب میں دیکھا کہ: میرے پروردِگار عزوجل نے اپنی بارگاہ میں بُلا کر اِرشاد فرمایا: اے سَرِی! کیا تُو جانتا ہے کہ میں نے مخلوق کو کیوں پیدا فرمایا؟
”میں نے عرض کی: ” اے میرے خالق مجھے نہیں معلوم۔ ” اللہ سبحان و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا: ” میں نے مخلوق کو پیدا کِیا تو سب نے مجھ سے محبّت کا دعویٰ کِیا۔پِھر میں نے دنیا کو پیدا کِیا تو دس ہزار میں سے نو ہزار میری محبّت سے غافل ہو کر دنیا کی محبّت میں کھو گئے۔پِھر میں نے جنّت کو پیدا فرمایا تو ہزار میں سے نو سو میری محبّت سے غافل ہو کر جنّت میں کھو گئے۔میں نے ان پر کچھ آلام و مصائب نازل کیے تو ان مصیبتوں کی وجہ سے سو میں سے نَوے میری یاد سے غافل ہو گئے۔ ”بقیہ دس بچے۔میں نے ان سے کہا: ” نہ تو تم نے دنیا کا اِرادہ کِیا،نہ جنّت کی رغبت کی اور نہ ہی مصیبتوں کی وجہ سے بھاگے،بتاؤ تم کیا چاہتے ہو؟ ”انہوں نے کہا: ” اے ہمارے علیم و خبیر پروردِگار تُو ہماری چاہت کو خوب جاننے والا ہے۔ ”اللہ سبحان و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا: ” میں تم پر ایسی ایسی آزمائشیں اور مصبتیں ڈالوں گا کہ جنہیں بلند و بالا پہاڑ بھی برداشت نہیں کر سکتے،کیا اس صورت میں بھی تم صبر و شُکر کے ساتھ اِستقامت پر قائم رہو گے؟ ”عرض کی: ” اے پروردِگار! تُو جانتا ہے کہ اب تک تُو نے ہم پر جتنی مصیبتیں نازل کیں ہم ان سب پر راضی رہے اور آئندہ بھی ہر حال میں تجھ سے راضی رہیں گے۔ ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا: ” تم ہی میرے مُخلص بندّے ہو۔