اگر آپ رچرڈ سے اس کے لڑکپن میں ملتے تو آپ اس کی بعد کی کامیابیوں کا گمان نہیں کر سکتے تھے۔ برینسن مطالعے اور حساب میں کمزور تھا۔ اسے ہائی اسکول سے خارج کر دیا گیا تھا اور وہ یہ بات تسلیم کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے کہ وہ ساری زندگی پڑھنے لکھنے سے معذور (Dyslexia) رہا۔ واقعی اگر ہم قیاس کرتے تو ایک Dyslexia شخص، پوری دنیا کا میڈیا آئی کن اور کھرب پتی عوام دوست انسان کے طور پر ہماری پہلی چوائس میں ہرگز نہیں ہوتا۔
مگر یہ آدمی اپنی درخشاں شخصیت اور 599 سال کی دھوپ میں سنہری ہو جانے والے بالوں کے ساتھ 400 کمپنیوں کا موروثی مالک نہیں تھا۔ اس کی پہلی کاروباری کوشش ایک طلبہ کا رسالہ تھا جو اس نے سولہ برس کی عمر میں شروع کیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس رسالے نے برطانیہ کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے کچھ مسائل پیدا کر دیے تھے۔ اپنے رسالے میں veneral بیماریوں کے علاج و ٹوٹکے چھاپنے کے نتیجے میں رچرڈ جیل جاتے جاتے بچا تھا۔ مگر یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اس کی وِرجن ریکارڈ دکانوں کے خرچ و آمدن کے درمیانی مسئلے میں پھنسنے کی وجہ سے وہ دوبارہ سلاخوں کے پیچھے جاتے جاتے بچا۔ اس بار معاملہ اور بھی سنجیدہ تھا، ٹیکس سے بچنے کا معاملہ۔ ایک رات حوالات میں گزارنے کے بعد جب مدعی کو 60,000 پاؤنڈ کی بھاری رقم ادا کی گئی تو اس کی گلوخلاصی ہوئی۔ وہ یاد کرتا ہے کہ اس تجربے کا اس پر بڑا اثر ہوا۔ ’’میں نے نے خود سے عہد کیا کہ میں آیندہ ایسا کوئی کام نہیں کروں گا جس کی وجہ سے مجھے جیل جانا پڑے اور نہ کوئی اس قسم کا کاروبار جس سے مجھے خفت کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘ تاہم اس کی پوری زندگی میں ناکامی کا سفر بھرپور طریقے سے جاری رہا۔ وِرجن کولا (جس کے لیے اس نے ٹائمز اسکوائر پر ایک ٹینک بھی چلایا تھا)، وِرجن وائی، وِرجن ڈیجیٹل سب ناکام ہو گئے۔ اور ایک طویل عرصے تک یہ فہرست چلتی رہی۔ برینسن کو کاروباری حلقے کا بادشاہ کہا جا سکتا ہے۔ اس کی تعریف کے مطابق ’’ناکامی سے سیکھیں۔
اگر آپ تاجر ہیں اور آپ کا پہلا کاروبار کامیاب نہیں ہوا تو اس حلقے میں خوش آمدید۔‘‘’’ناکامی بہترین اُستاد ہے۔‘‘ ہم بڑی آسانی سے امیروں پر یہ فقرے چست کر دیتے ہیں کہ یہ انھوں نے آسانی سے حاصل کر لیا ہو گا… یہ ان کی والدین کی وجہ سے ہے… یہ خوش قسمت تھے… یہ غالباً خفیہ تنظیمیں یا دنیا میں تبدیلی لانے والے مافیا کے کام ہیں… یا شاید کسی غیر زمینی مخلوق کا قبضہ ہے وغیرہ۔
ہمارے پاس ایسی درجنوں وجوہات ایجاد کر لی جائیں گی جن سے کسی نہ کسی طرح ہم ایسے لوگوں کی کامیابی کو ’’خوش قسمتی‘‘ یا ’’معلومات کے خصوصی حصول‘‘ سے منسلک کر دیتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے سو امیر ترین افراد میں سے 73 نے یہ مقام اپنی محنت سے حاصل کیا ہے۔ اس بات میں کوئی سازش نہیں ہے بلکہ یہ ایک نشریاتی و اشاعتی ادارے Bloomberg کی پیش کردہ حقیقت ہے۔
یہ خوددار (Self made) ارب پتی افراد وہ تمام بنیادی اور اہم معلومات اپنی زندگیوں میں شامل کرتے ہیں جو باقی تمام لوگوں کو بھی حاصل کرنا چاہیے۔ ان لوگوں نے وہ سب کیا جس کے بارے میں لوگ صرف پڑھتے ہیں۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جاننا اور عمل کرنا دو مختلف چیزیں ہیں، جبکہ کامیابی اور ناکامی اس درجے مماثل ہیں کہ یہ دونوں چکردار زینے ہیں۔
ایک بار چڑھ گئے تو عملی قوت آپ کو جاری رکھے گی اور اس عمل میں کچھ سرگرانی (dizziness) شامل کر دے گی۔ ہمیں ناکامی کی سیڑھی پر اسے ایک فیڈ بیک کے طور پر دیکھنا چاہیے ورنہ اس کا راستہ سطح سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور یہ ہمیں گہرائی میں اُتارتی جائے گی اور آخر کار ہمیں بالکل برباد کر چھوڑے گی۔