اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)جے آئی ٹی نے اپنی درخواست میں مختلف وفاقی اداروں پر تحقیقاتی عمل میں رکاوٹیں ڈالنے اور جے آئی ٹی اراکین کی جاسوسی کا الزام لگایا تھا۔ڈی جی آئی بی آفتاب سلطان نے کوائف اکٹھا کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ’آئی بی قومی اہمیت کے ہر معاملے کی معلومات اکھٹی کرتی ہے اور سرکاری اعلی عہدوں پر تعینات سرکاری ملازمین کا ڈیٹا اکھٹا کرنا اور معلومات حاصل کرنا آئی بی کا معمول کا کام ہے‘۔
ڈی جی آئی بی کے مطابق پانامہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کے ملکی معاملات پر گہرے اثرات ہوں گے اس لیے جے آئی ٹی ارکان کے کوائف جمع کیے گئے۔جے آئی ٹی کے رکن بلال رسول اور ان کی اہلیہ کو ہراساں کرنے سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلا ل رسول اور ان کے اہل خانہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیک کرنے کا بھی الزام غلط ہے۔انھوں نے واضح کیا کہ آئی بی نے جے آئی ٹی میں شامل کسی بھی رکن کو نہ ہراساں کیا اور نہ ہی ان کی نجی زندگی میں مداخلت کی گئی۔آفتاب سلطان نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی ارکان کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کے عمل کا افشاں ہونا قابل تشویش ناک بات ہے۔اد رہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان اشتر اوصاف علی نے جے آئی ٹی کو درپیش مشکلات سے متعلق جواب گذشتہ روز (16 جون) سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورہو (نیب)، وزارت قانون، انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور وزیراعظم ہاؤس نے جے آئی ٹی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔واضح رہے کہ رواں ہفتے سپریم کورٹ میں پاناما لیکس عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے الزام عائد کیا تھا کہ متعدد حکومتی ادارے پاناما پیپرز کی تحقیقات کے لیے ‘شواہد اکھٹا کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔
جے آئی ٹی نے الزام لگایا تھا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) ریکارڈز کی حوالگی میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں جبکہ یہ تمام ادارے متعلقہ دستاویزات میں جعلسازی اور چھیڑ چھاڑ کے بھی مرتکب ہیں۔جس پر عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو جے آئی ٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔