تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایوب خان کا عہد سادگی کا دور تھا۔ صدر نسبتاً چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے جہاں ان کے تمام تر اخراجات ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کیے جاتے تھے۔ گھر کا سارا انتظام و انصرام بیگم ایوب کے ہاتھ میں تھا، وہ کچن کو بھی خود ہی چلاتی تھیں۔ سودا سلف ذاتی باورچی اور ایک آدھ دوسرا ملازم لاتا تھا۔ کھانے کے کمرے کے لیے صرف ایک ویٹر تھا جو لنچ ڈنر کے دوران کھانا سرو کرتا اور باقی اوقات میں ایوب خاندان کے ذاتی مہمانوں کی تواضع کرتا۔
سرکاری تقریبات کا شعبہ گھریلو کچن سے بالکل الگ تھا اور اسے براہ راست صدر کا سیکرٹری چلاتا تھا۔ بجٹ سے رقم کی ڈیمانڈ کرنا ملازمین رکھنا، مینو تیار کرنا اور تقریب کے دوران آرائش و زیبائش کا انتظام اسی سیکرٹری کی ذمہ داری تھی۔ جس میں صدر حصہ نہیں لیتے تھے۔ دفتر میں صدر کے ذاتی اور سرکاری مہمانوں کی تواضع سرکاری رقم سے کی جاتی تھی ہاں البتہ صدر صبح اورشام کا کھانا اپنے گھر کھاتے تھے جس کا اہتمام ان کی فیملی کرتی تھی۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔ رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔