تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فیروز خان نون کا اپنا ذاتی باورچی جو کراچی میں ان کے ذاتی گھر میں رہتا تھا۔ دن میں دو مرتبہ وزیراعظم اور ان کے سارے عملے کا کھانا دفتر پہنچانا اس کی ذمہ داری ہوتی تھی جسے وہ وزارتِ عظمیٰ کے آخری وقت تک نبھاتا رہا۔ اس سارے کچن کا خرچ وزیراعظم اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کرتے تھے اور اس ضمن میں سرکاری خزانے سے ایک پیسہ وصول نہیں کرتے تھے۔
ان کے سیکرٹری الطاف گوہر نے ایک بار جب ان کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی تو وہ ہنس کر بولے۔ ’’بالشک روٹی پانی کھلانے پلانے سے رزق کم نہیں ہوتا، بڑھتا ہے۔ میری جاگیریں جتنا اناج پیدا کرتی ہیں وہ میں کہاں لے جاؤں گا۔ اچھاہے کچھ حصہ آپ لوگوں کے کام بھی آجائے۔‘‘ ان کے دور اقتدار میں ہونے والی نوے فیصد تقریبات کے اخراجات بھی انہوں نے خود ہی برداشت کیے جبکہ مہینے میں ایک یا دو بار سارے سٹاف کی دعوت کرنا بھی ان کی زندگی کا معمول تھا۔ جس میں وہ پرتکلف کھانے کے دوران سب کو خوب لطیفے سناتے، ان کے زیادہ تر لطیفے جاگیردار طبقے کی حماقتوں اور سیاستدانوں کی بے وقوفیوں کے گرد گھومتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک عجیب شوق تھا۔ وہ نئے شادی شدہ جوڑوں کو کھانے کی دعوت دیتے تھے چنانچہ سرکاری حلقوں میں جتنی شادیاں ان کے دور میں ہوئیں وہ شاید ہی کسی دوسرے عہد میں ہوئی ہوں۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی،
یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔ رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔