تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چودھری محمد علی بڑے صابر، سیر چشم اور درویش صفت شخص تھے۔ وہ اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں وزیراعظم ہاؤس منتقل ہونے کی بجائے اپنے نجی فلیٹ ہی میں مقیم رہے، جہاں کوئی ملازم نہیں تھا۔ تین کمروں کے اس فلیٹ کا سارا کام ’’خاتون اول‘‘ کو خود اپنے ہاتھوں سے کرنا پڑتا تھا جب چودھری صاحب وزیراعظم بنے تو خاتون کو گمان گزرا کہ شاید اب ان کے خاوند کی تنخواہ بڑھ جائے گی
اور وہ انہیں کام کاج کے لیے ایک ملازم رکھ دیں گے لیکن جب ’’وزیراعظم‘‘ نے انہیں یہ بتایا کہ ان کی تنخواہ میں اضافے کی بجائے کمی آ چکی ہے تو ان کے سارے ارمانوں پر اوس پڑ گئی اور وہ دوبارہ کچن میں گھس کر ’’ہانڈی روٹی‘‘ کے دھندے میں الجھ گئیں۔ چودھری صاحب صبح دفتر آتے وقت اپنا ٹفن ساتھ لاتے تھے جس میں عموماً ساگ ’’آلو کی بھجیا‘‘ کریلے گوشت یا کبھی کبار مرغی کے چند بھنے ہوئے ٹکڑے ہوتے تھے۔ رہی روٹیاں تو وہ چودھری صاحب تنور سے منگوا لیتے تھے۔ لنچ کے دوران اگر کوئی مہمان وہاں موجود ہوتا تو چودھری محمد علی اپنی روایتی گرم جوشی سے اسے بھی تناول ماحضر کی دعوت دے دیتے تھے جسے عموماً لوگ ’’وزیراعظم پاکستان‘‘ کی دعوت سمجھ کر قبول کر لیتے تھے پھر تنور سے چار پانچ روٹیاں منگوائی جاتیں ٹیبل پر ’’پرائم منسٹر‘‘ کا لنچ بکس کھولا جاتا جسے بیرہ گرم کرکے جب کھانا سرو کرنے کا وقت آتا، خاتون اول کھانے کی ٹرے لاتی اور مرد اول ٹیبل پر پلیٹیں، چمچ، کانٹے اور پیالیاں سجاتے، کھانے کے دوران پانی ختم ہو جاتا تو وزیراعظم خود جگ بھر کر لاتے اور ایک ایک مہمان کے گلاس میں پانی انڈیلتے، سرکاری تقریبات میں کھانا چودھری صاحب کو اچھا نہیں لگتا تھا لہٰذا اس وقت جب سارے اہلکار مرغن کھانوں کی قابوں کے پیچھے لپک رہے ہوتے یا گلاس سے گلاس ٹکرا رہے ہوتے،
چودھری محمد علی چائے کی چھوٹی سی پیالی ہونٹوں سے لگائے بیٹھے رہتے یا ایک پلیٹ میں تھوڑے سے خشک چاول ڈال کر آہستہ آہستہ چبا رہے ہوتے۔ وہ پیٹ بھر کر کھانا اس لیے نہیں کھاتے تھے کہ گھر میں ان کی اہلیہ میز پر کھانا لگائے ان کا انتظار کر رہی ہوتیں چنانچہ انہیں خواہ کام میں رات کے بارہ ہی کیوں نہ بج جاتے وہ کھانا گھر جا کر ہی کھاتے تھے۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔
رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔