حضرت صالح مری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے محراب داٶد علیہ السلام میں ایک ضعیفہ نابینا عورت کو دیکھا جو اُون کا کرتا پہنے نماز پڑھ رہی تھی ایک طرف نماز ادا کرتی جاتی تھی دوسری طرف گریہ زاری کرتی جاتی تھی میں اپنی نماز سے فارغ ھو کر اسے دیکھنے لگا نماز کے بعد آسمان کی طرف سر اُٹھا کر اس نابینا ضعیفہ نے یہ اشعار پڑھے
ترجمہ ۔ تو ہی زندگی میں میرا مقصود اور میری حفاظت کرنے والا ھے تو ہی میرا ذخیرہ اور سہارا دینے والا ہے موت کے بعد ۔ اے مخفی اور پوشیدہ علم رکھنے والے اور باطن کے خطرات کو جاننے والے ۔ تیرے سوا میرا کوئی مالک نہیں ہے کہ میں اس سے ہلاکت خیز چیزوں کے دفع کرنے کی اُمید رکھوں ۔ ان اشعار سے جب نابینا ضعیفہ فارغ ہوئی تو حضرت صالح مری رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا تمہاری آنکھیں کیسے جاتی رہیں؟ ضعیفہ عورت نے جواب دیا اللہ تعالی کے احکام کی نافرمانی سے نادم ھو کر اور اُسکی یاد اور ذکر سے غفلت کے احساس میں جو آنسو میں نے بہائے اس سبب سے میری آنکھیں ختم ھو گئیں ہیں اگر مجھے بخش دیا گیا تو انشاء اللہ اس سے اچھی آنکھیں آخرت میں مل جائیں گی اور اگر معاف نہ کیا تو جہنم میں جلنے والی آنکھیں لیکر میں کیا کروں گی۔ حضرت صالح مری رحمتہ اللہ علیہ ضعیفہ کی بات سن کر رو پڑے ضعیفہ عورت نے کہا اے صالح مجھے اپنے مولا کا کلام سنانے سے تجھے انکار تو نہیں ھو گا اسکی عزت و وقار کی قسم مجھے اس کا بہت زور سے شوق ھے حضرت صالح نے آیت مبارکہ ۔ وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَؔ قَدرِہ اِلایہ تلاوت کی نابینا ضعیفہ عورت نے کہا اے صالح اسکی خدمت کا حق بھلا کون ادا کر سکتا ھے ؟ اسکے بعد ضعیفہ عورت نے ایسی چیخ ماری کہ سننے والوں کے جگر پاش پاش ھو جائیں اور زمین پر گر پڑی لوگوں نے دیکھا تو وہ انتقال کر چکی تھی۔
حضرت صالح مری رحمتہ اللہ فرماتے ہیں ایک روز خواب میں میں نے بہت اچھی حالت میں دیکھا میں نے خیریت دریافت کی تو اُس ضعیفہ عورت نے بتایا مرنے کے بعد مجھے اللہ تعالی جل شانہُ نے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا جسے کوتاہی خدمت کی ندامت نے مار ڈالا اسکی آمد مبارک ۔
پھر یہ اشعار پڑھتی لوٹ گئی جسکا مفہوم یہ ھے میرے ساتھ وہی احسان کیا گیا جسکی اُمید تھی اور جو مجھے پسند تھا عنایت کیا گیا میں اسکے پاس نعمتوں لزتوں اور مسرتوں میں ھوں ۔ اسکے بعد آپکی آنکھ کھل گئی ۔