ایک مرتبہ بنو امیہ کے کچھ لوگوں نے اکٹھے ہو کر آپ سے کہا کہ گزشتہ خلفاء ہمارے ساتھ جو حسن سلوک اور الطاف خسروانہ کرتے تھے آپ نے ان سب میں کمی کر دی ہے جس کی وجہ سے ہمارے عیش و آرام اور گزران میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ اس طریقہ سے انہوں نے آپ پر نہایت برہمی کا اظہار کیا آپؒ نے ان کی ان سب باتوں کو نہایت غور سے سنا اور پھر دھمکی آمیز لہجے میں فرمایا:
’’اگر آئندہ پھر تم نے اس قسم کی باتیں کیں تو سن لو! میں نہ صرف تمہارا شہر بلکہ عنان خلافت چھوڑ کر مدینہ طیبہ چلا جاؤں گا اور خلافت کامعاملہ شوریٰ پر چھوڑ دوں گا۔ میں اس کے اہل قاسم بن عبداللہ کو اچھی طرح پہچانتا ہوں۔
نسبتِ شاہی معیارِ عزت نہیں
حضرت عمرؒ نے ابوبکر بن محمد کو لکھا کہ شاہی خاندان کے کسی فرد کو صرف اس لیے کسی بات پر ترجیح نہ دو کہ اس کا تعلق شاہی خاندان سے ہے کیونکہ میرے نزدیک ان میں اور دوسرے عام مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر آپؒ نے اپنے اس حکم کا عملی مظاہرہ اس طرح کیا کہ ایک دفعہ مسلمہ بن عبدالملک ایک مقدمہ کے فریق کی حیثیت سے آپ کی مجلس میں آیا اور آ کر درباری فرش پر بیٹھ گیا۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ دوسرے فریق مقدمہ کی موجودگی میں آپ کو اس درباری فرش پر بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ تم عام مسلمانوں کے برابر بیٹھو یا کسی دوسرے کو اپنا وکیل مقرر کردو۔ یہ الفاظ آپ نے اس شخص کو کہے جو آپ کی اہلیہ کا بھائی تھا۔