حضرت عمرؒ نے جب شاہی خاندان سے غصب شدہ املاک چھین کر انہیں اصل مالکوں کو واپس کیا تو اس وقت ذمیوں کی مغصوبہ زمینیں بھی واپس لائیں۔ اس سلسلہ میں ایک ذمی نے دعویٰ دائر کیا کہ عباس بن ولید۔ جو شاہی خاندان کا چشم و چراغ تھا۔ اس نے میری زمینوں پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ نے عباس سے جوابِ دعویٰ کے لیے کہا۔ اس نے کہا: یہ زمین ولید نے مجھے جاگیر دی ہے اور میرے پاس اس کی دستاویز موجود ہے۔
ذمی نے اپنے دعوے کا یہ جواب سن کر کہا: ’’امیرالمومنین! میں آپ سے کتاب اللہ کے مطابق اس کا فیصلہ چاہتا ہوں۔‘‘ آپؒ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ ولید کی سند پر مقدم ہے‘‘۔ چنانچہ آپؒ نے عباس بن ولید سے زمین چھین کر ذمی کو واپس لوٹا دی۔
ذمی کے ساتھ حسن سلوک
سیدنا حضرت عمرؒ کا حکم تھا کہ کوئی مسلمان کسی ذمی کے مال پر دست درازی نہ کرے۔ چنانچہ اس ہدایت کے اثرات تھے کہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے مال اور زمین پر دست درازی نہیں کر سکتا تھا اگر ایسا کرتا تو اسے قرار واقعی سزا ملتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ ایک مسلمان ربیعہ شودی نے ایک سرکاری ضرورت کے تحت ایک نبطی کا گھوڑا بیگار میں پکڑ لیا اور اس پر سواری کی۔ یہ ایک معمولی بات تھی۔ آپ سے پہلے بھی ایسا ہوتا تھا لیکن جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو اس بات کا پتہ چلا تو اس عہدے دار کو چالیس کوڑے لگوائے تاکہ دوسروں کے لیے باعث عبرت ہو۔
ذمیوں کی عبادت گاہوں کی حفاظت
ایک مرتبہ دو خارجیوں نے آ کر حضرت عمرؒ سے ذمیوں کے بارے میں استفسار کیا کہ کیا انہیں طاقت سے زیادہ تکلیف دی جا سکتی تھی؟
آپ نے جواب میں فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت کے اندر تکلیف دیتا ہے تو ہم کون ہیں جو ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف دیں؟ اس نے پھر پوچھا کہ اگر اہل ذمہ کے عبادت خانے یعنی گرجے وغیرہ ڈھا دئیے جائیں تو کیا حرج ہے؟ حضرت عمرؒ نے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس نے بہت اصرار کیا لیکن آپ نے اس کی یہ بات ہرگز نہیں مانی اور فرمایا یہ عبادت خانے اور گرجے میری رعایا کی صلاح اور فائدے میں شامل ہیں۔