حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے حکم کے مطابق زکوٰۃ کے منتظمین کو زکوٰۃ کی رقم تقسیم کرنے میں تاخیر کرنے کی ممانعت تھی اور اگر وہ تاخیر کرتے تو ان سے اس بارے میں بازپرس ہوتی۔ چنانچہ وہ زکوٰۃ تقسیم کرنے میں کوئی تاخیر نہ برتتے۔ عیدالفطر کے موقع پر ایک شخص بہت سی زکوٰۃ کی رقم لایا اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے مشورے کے لیے اس نے اس کو روکے رکھا اور تقسیم نہ کیا۔
حضرت عمرؒ نے لکھا: ’’بخدا! لوگوں نے مجھے اور تمہیں اپنے خیالات اور گمانوں کے مطابق نہیں پایا۔ آج تک تم نے اس زکوٰۃ کی رقم کو کیوں روکے رکھا؟ میرا یہ خط وصول ہوتے ہی فوراً اس رقم کو مستحق لوگوں میں تقسیم کرو۔‘‘
سرکاری مال ذاتی استعمال میں لانے سے اجتناب
حضرت عمرؒ ایسے خلیفہ تھے کہ جنہوں نے اپنے خواص کو بھی یہ اختیار نہ دیا تھا کہ وہ سرکاری مال یا غلام یا جانور کو اپنی ذات کے لیے استعمال کریں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک غلام نے ایک شخص کو سرکاری گھوڑے پر آپ کی اجازت کے بغیر سوار کر دیا۔ پہلے خلفاء کے لیے یہ ایک معمولی بات تھی اور اکثر وہ سرکاری سواریوں اور غلاموں کو اپنے ذاتی کاموں میں استعمال کرتے، لیکن حضرت عمرؒ نے اس کو بلا کر فرمایا: جب تک اس کا کرایہ بیت المال میں جمع نہیں کرائے گا تو اپنی جگہ سے ہل نہیں سکے گا۔‘‘ چنانچہ اس نے اس کا کرایہ بیت المال میں جمع کرا دیا۔
لوگوں کی سہولت کی فکر
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو جس کام کے بارے میں یقین ہو جاتا کہ وہ لوگوں کے لیے مفید ہے تو آپ اس کے کرنے کا فوری حکم صادر فرما دیتے۔
چنانچہ ایک مرتبہ عدی بن فضیل نے آ کر آپ سے عذبہ میں کنواں کھودنے کی اجازت مانگی۔ آپ نے عدی سے پوچھا کہ عذبہ کہاں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ بصرہ سے دو دن کی مسافت پر ہے۔ حضرت عمرؒ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایسی جگہ پر پانی نہیں ہے۔ پھر آپ نے انہیں کنواں کھودنے کی اجازت مرحمت فرما دی کہ سب مسافر اس پانی کے حق دار ہیں۔ چنانچہ وہاں کنواں کھودا گیا اور تمام لوگ اس کنویں کے پانی سے مستفید ہوئے۔