آل بلال میں رباح نے حضرت عمرؒ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا کہ انہوں نے آپ کو ایک کھیت فروخت کیا تھا۔ پھر اس میں کانیں نکل آئیں۔ مقدمہ میں کہا گیا کہ ہم نے آپ کو کھیت فروخت کیا تھا کانیں فروخت نہیں کی تھیں اور انہوں نے آپ کو رسول اللہؐ کی ایک تحریر دکھائی۔حضرت عمرؒ نے لپک کر وہ تحریر چوم لی اور اسے اپنی آنکھوں سے لگایا اور اپنے منتظم سے فرمایا، اس کی آمدنی اور خرچ کا اندازہ لگاؤ۔ پھر آپ نے خرچ وضع کرکے باقی رقم انہیں دے دی۔
اُمراء حضرت عمرؒ کے دروازے پر
ایک دفعہ امراء حضرت عمرؒ کے دروازے پر جمع ہو گئے، آپ اندر تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آپ کے صاحبزادے عبدالملک سے کہا کہ یا تو ہم لوگوں کو اندر جانے کی اجازت دلواؤ یا پھر اپنے ابا کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دو کہ ’’ان سے پہلے جو خلفاء تھے وہ ہمارے اوپر انعام و عطایا نچھاور کیا کرتے تھے، ہمارے مراتب و درجات کا لحاظ رکھتے تھے، لیکن تمہارے ابا نے ہمیں ہر قسم کی مراعات سے محروم کر دیا۔‘‘ عبدالملک نے اندر جا کر سیدنا عمرؒ کو لوگوں کا یہ پیغام سنا دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ان لوگوں کو جا کر کہہ دو کہ اگر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کروں تو قیامت کے عذاب سے مجھے سخت خوف آتا ہے، لہٰذا میں آپ لوگوں کو کوئی بھی ناجائز مراعات نہیں دے سکتا۔
تو نکہتِ گل بن کے سبک سیر گزر جا
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے عدل و انصاف کی بارش اپنے پرائے سب پر یکساں برستی تھی۔ جب آپ کے گھر والوں کو بھی مشقت کا سامنا کرنا پڑا تو انہیں بھی آپؒ سے کچھ شکایت ہوئی۔ چنانچہ عنبسہ بن سعد نے آپ سے شکایت کی کہ امیرالمومنین! ہم لوگوں کا آپ پر حق قرابت ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ’’میرے ذاتی مال میں تم لوگوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، یعنی تمہاری ضرورت اس سے پوری نہیں ہو سکتی اور بیت المال کے مال میں تم لوگوں کا اس سے زیادہ حق نہیں ہیخ جتنا ’’برک غماد‘‘ ایک جگہ کا نام ہے، کے آخری حدودکے رہنے والے کا ہے، خدا کی قسم! اگر ساری دنیا تمہاری ہم نوا ہو جائے تو ان پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہو۔















































