اس سلسلے کی اگلی کڑی یہ ہوئی کہ حضرت عمرؒ نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کیا اور فرمایا: ’’بنو مروان! تم کو شرف و دولت کا ایک بہت بڑا حصہ ملا ہے اور میرے خیال میں امت کا نصف یا دو تہائی مال تمہارے قبضے میں ہے۔‘‘ یہ دراصل آپ نے ان لوگوں کو اشارتاً بتایا تھا کہ تم غصب شدہ اموال اور جائیدادیں واپس کر دو۔ وہ لوگ آپ کے اس اشارے کو سمجھ گئے اور کہا:
خدا کی قسم! جب تک ہمارے سرجسموں سے جدا نہ ہو جائیں اس وقت تک ہم یہ اموال اور جائیدادیں واپس نہیں کریں گے خدا کی قسم! ہم نہ اپنے آباؤ اجداد کو کافر بنا سکتے ہیں اور نہ اپنی اولادوں کو فقیر و مفلس۔ آپؒ نے ان کا یہ جواب سن کر فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر تم اس معاملہ میں میری مدد نہیں کرو گے تو میں تم لوگوں کو ذلیل و رسوا کر دوں گا میرے پاس سے چلے جاؤ۔‘‘
عظیم گھرانہ
جب حضرت عمرؒ خلیفہ بنے تو ان کے گھر میں غریبی ناچنے لگی تھی۔ آپؒ کی اہلیہ فاطمہ بنت عبدالملکؒ نے درخواست کی کہ ان کا اور ان کے بچوں کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ آپؒ نے فرمایا: بیت المال میں گنجائش نہیں۔ وہ بولی: آپ قبل از خلافت دوسروں سے کیوں لیا کرتے تھے۔ فرمایا: جب تو وہ مال میرے لیے حلال اور طیب تھا اس کا وبال اور گناہ انہیں پر تھا جنہوں نے اس کو ناجائز طریقے سے حاصل کیا لیکن خلیفہ بنائے جانے کے بعد میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اس طرح حضرت عمرؒ اہلیہ کو برابر سمجھاتے رہے یہاں تک کہ وہ بھی اس تقویٰ اور پرہیزگاری کے سانچے میں ڈھل گئیں۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے ان سے اس بیش بہا قیمتی پتھر کو بیت المال میں داخل کرنے کا کہا جو ان کو اپنے والد عبدالملک سے ملا تھا تو انہوں نے فوراً وہ پتھر بیت المال میں داخل کر دیا۔















































