بعض روایات میں ہے کہ موت جب سلیمان کو جھانکنے لگی اور اس کی بے قراری میں اضافہ ہوا تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرے بچے میرے سامنے مسلح پیش کیے جائیں یعنی تلواریں لٹکی ہوئی ہوں، زرہیں پہنی ہوئی ہوں اور لڑائی کی چادریں اوڑھے ہوئے ہوں شاید میں اپنے کسی بچے میں شجاعت کے آثار دیکھ اور اس کے حق میں خلافت کی وصیت کر جاؤں۔ رجاء بن حیوۃ نے حکم کی فوری طور پر تعمیل کی اور اس کے سب بچے مسلح حالت میں اس کے سامنے پیش کیے گئے۔
سلیمان نے انہیں دیکھ کر کہا: ’’میرے بچے چھوٹے ہیں، وہ کامیاب ہے جس کے بچے بڑے ہوں۔‘‘ اس وقت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی وہاں موجود تھے۔ وہ بولے: ’’وہ کامیاب ہوا جو پاک ہوا اور اس نے اپنے رب کا نام لیا اور نماز پڑھی۔‘‘ یہ آیت سن کر سلیمان تاڑ گیا پھر اس نے اپنے دل میں کہا کہ وہ خلافت کی گرہ اس طرح باندھے گا کہ اس میں شیطان کا حصہ نہ ہوگا۔
خلافت سے پہلے
سیدنا عمرؒ اگرچہ خلافت کے خواہاں نہ تھے اور نہ انہوں نے اس کے لیے کوئی دوڑ دھوپ کی لیکن ان کا ظنِ غالب تھا کہ سلیمان انہی کو خلیفہ نامزد کریں گے۔ یہ گمان اسی روز سے تھا جس روز سلیمان خلیفہ بنے تھے۔ نو روز اور مرجان کے دن سلیمان کے پاس سونے کے برتنوں میں تحائف کی بھرمار ہوتی تھی۔ جب لوگ تحائف لے کر آتے اور حضرت عمرؒ وہاں موجود ہوتے تو جب بھی کوئی تحفہ لے کر گزرتا تو سلیمان پوچھے: ’’عمر! کہو یہ کیسا ہے؟‘‘ حضرت عمرؒ جواب دیتے: ’’امیرالمومنین! یہ تو دنیوی زندگی کی پونجی ہے۔‘‘ سلیمان پوچھتے ’’اچھا اگر تمہیں خلیفہ بنادیا جائے تو تم ان کا کیا کرو گے؟ حضرت عمرؒ جواب دیتے: ’’امیرالمومنین! اللہ گواہ ہے کہ میں انہیں بانٹ دوں گا اور ایک بھی اپنے پاس نہیں رکھوں گا۔‘‘
سلیمان کی وفات کے بعد محدث رجاء بن حیوۃ نے اس اندیشے کے تحت کہ سلیمان کی وفات کی خبر سننے کے بعد کہیں اہل خاندان سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی بیعت میں کچھ لیت و لعل نہ کریں۔ موت کی خبر کو مخفی رکھا اور دوبارہ خاندان کے تمام افراد کو جمع کرکے ان سے امیرالمومنین کے وصیت نامہ پر پھر فرداً فرداً بیعت لی اور اس طرح بیعت کو مستحکم کرنے کے بعد سلیمان کی موت کا اعلان کیا اور وصیت نامہ پڑھ کر سنایا۔
سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کی نامزدگی کا سن کر تمام افراد نے سمعنا و اطعنا کہا لیکن ہشام بن عبدالملک نے بیعت سے انکار کر دیا۔ رجاء نے حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے ہشام سے کہا کہ خاموشی سے بیعت کرو ورنہ تمہارا سر قلم کر دوں گا اور پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں منبر پر بٹھا دیا اور پھر کسی نے چوں و چرا نہ کی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ بننے کے بعد گھر پہنچے تو خلافت کے بار گراں سے پریشان حال اور کبیدہ خاطر تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی کوہ گراں آپ پر ڈال دیا گیا ہے۔ خادمہ نے یہ حالت دیکھی تو پوچھا: خیر ہے آپ اس قدر فکر مند کیوں ہیں؟ آپؒ نے فرمایا: اس سے بڑھ کر تشویش کی بات کیا ہو گی کہ مشرق و مغرب میں رسول اللہؐ کی امت کا کوئی فرد ایسا نہیں ہے جس کا حق مجھ پر نہ ہو اور بغیر مطالبہ اور اطلاع کے اس کا ادا کرنا مجھ پر فرض نہ ہو۔















































