آپ کے مزاج کی حدت و شدت آپ کو ورثہ میں ملی تھی۔ آپ کے غلام بھی آپ کے غصہ و ناراضگی سے سہمے رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے عنفوانِ شباب میں اپنے ایک غلام کو مارا تو غلام نے دل میں ارادہ کیا کہ آپ کے مزاج کی تیزی کو ختم کرنا چاہیے۔ چنانچہ ایک روز اس نے اس وقت جب کہ آپ خوشگوار موڈ میں تھے، آپ سے پوچھا ’’آپ نے کبھی کوئی ایسا قصور کیا ہے جس سے آپ کا آقا آپ سے ناراض ہو گیا ہو اور آپ کو فوری سزا دی ہو؟‘‘
انہوں نے کہا، نہیں۔ غلام نے کہا پھر آپ نے مجھے کیوں فوری سزا دی جب کہ آپ کو فوراً سزا نہیں دی گئی۔ یہ جملہ سن کر آپ نادم ہوئے، قلب پر رقت طاری ہو گئی اور غلام سے فرمایا ’’جا تو اللہ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔‘‘
کوئی محفل ہو اس کو ہم تیری محفل سمجھتے ہیں
ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے ساتھ سفر میں تھے۔ کچھ ساتھیوں کے سامان پیچھے رہ گئے اس وجہ سے شاہی سواری پیچھے ٹھہر گئی۔ جن کے سامان روانہ ہو چکے تھے وہ آ رہے تھے لیکن جن کے سامان روانہ نہیں ہوئے تھے ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا۔ بس اتنی سی بات پر حضرت عمرؒ کو آخرت یاد آ گئی اور آپ فرطِ تاثر سے رو پڑے۔ خلیفہ عبدالملک نے رونے کا سبب پوچھا؟ تو فرمایا: ’’کل قیامت کے روز بھی ایسا ہی ہو گا جس نے یہاں سے کچھ عمل صالح بھیجا ہو گا تو اسے تو وہاں اچھا بدلہ ملے گا اور جس نے نہ بھیجا ہو گا وہ محروم رہے گا۔ بس اسی فکر نے ان کی دنیا تبدیل کر دی تھی اور پھر موت تک آخرت کی یاد سامنے رہی۔