ایک رات حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اپنی سواری پر سوار ہو کر تنہا باہر نکلے۔ آپ کے پیچھے پیچھے مزاحم بھی چلے گئے۔ حضرت عمرؒ آگے آگے چل رہے تھے۔ اچانک مزاحم نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنا ہاتھ حضرت عمرؒ کے کندھے پر رکھا ہوا ہے، مزاحم کو خیال گزرا کہ یہ شخص بڑی اَن دیکھی اور عجیب حالات و علامات والا لگتا ہے یہ کون ہو سکتا ہے؟ چنانچہ اس تشویش کی بناء پر مزاحم تیزی سے چلے کہ حضرت عمرؒ سے جا ملیں۔ جب مزاحم حضرت عمرؒ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ حضرت عمرؒ تو اکیلے ہی ہیں اور آپؒ کے ساتھ
دوسرا کوئی شخص نہیں ہے۔ انہوں نے حضرت عمرؒ سے عرض کیا: میں نے ابھی ابھی ایک آدمی کو آپؒ کے ساتھ دیکھا تھا، جس نے آپ کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کوئی غیر معمولی آدمی لگتا ہے یہ کون ہوسکتا ہے؟ اب جب میں آپ کے پاس پہنچا ہوں تو وہ آدمی یہاں نہیں ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا: کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا ہے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تب تو میں تمہیں ایک نیک اور مبارک آدمی سمجھتا ہوں کہ تم نے ان کی زیارت کر لی ہے، آپ نے فرمایا: ’’اے مزاحم! وہ حضرت خضر تھے۔ انہوں نے مجھے خلافت ملنے اور اس معاملے میں میری مدد کیے جانے کی بشارت سنائی ہے۔‘‘