بدھ‬‮ ، 17 ستمبر‬‮ 2025 

جنت کی بشارت

datetime 12  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ابو حازم خناصری اسدی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؒ کے زمانۂ خلافت میں جمعتہ المبارک میں دمشق گیا تو اس وقت لوگ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ اگر میں حضرت عمرؒ کے سواری سے اترنے کی جگہ پر گیا تو میری نماز فوت ہو جائے گی اس لیے میں پہلے نماز ادا کرتا ہوں بعد میں ان سے ملاقات کر لوں گا۔ چنانچہ میں مسجد کے دروازے کی طرف چل پڑا،

مسجد کے دروازے پر پہنچ کر میں نے اپنے اونٹ کو بٹھایا، اس کو رسی سے باندھا اور مسجد میں داخل ہو گیا، اس وقت امیرالمومنینؒ خطبہ دے رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو مجھے پہچان لیا اور آواز دی: ’’اے ابو حازم! میری طرف آؤ!‘‘ جب لوگوں نے امیرالمومنین کی میرے لیے یہ ندا سنی تو انہوں نے مجھے راستہ دے دیا اور میں محراب کے قریب پہنچ گیا۔ جب امیرالمومنینؒ خطبہ اور نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: اے ابو حازم! تم ہمارے شہر میں کب آئے ہو؟‘‘ میں نے عرض کیا: ابھی ابھی پہنچا ہوں اور میرا اونٹ مسجد کے دروازے پر بندھا ہوا ہے، ’’کیا آپ عمر بن عبدالعزیز ہیں؟‘‘ آپؒ نے فرمایا: ہاں میں ہی عمر بن عبدالعزیز ہوں۔ میں نے کہا، اللہ کی قسم! جب آپ خناصرہ میں عبدالملک بن مروان کی جانب سے وہاں کے امیر مقرر تھے، تو آپ کا چہرہ نہایت تر و تازہ اور دنیاوی نعمتوں کے اثرات سے معمور تھا۔ آپ کا لباس نہایت صاف ستھرا تھا، آپ کی سواری نہایت عمدہ تھی، آپ کا کھانا نہایت لذیذ اور اعلیٰ درجے کا تھا، اے امیرالمومنین! اب کس چیز نے آپ کی حالت بدل ڈالی ہے؟ آپ نے فرمایا ’’میں تم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نے خناصرہ میں مجھے وہ حدیث نہیں سنائی تھی؟‘‘ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! میں نے حضرت ابوہریرہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’تمہارے سامنے ایک گھاٹی ہے۔‘‘

یہ سن کر حضرت امیرالمومنینؒ اونچی آواز سے روئے یہاں تک کہ سسکیوں کی آواز آنے لگی، پھر کچھ دیر بعد اونچی آواز سے ہنسے یہاں تک کہ ان کے دانت بھی ہنسنے کی وجہ سے نظر آنے لگ گئے۔ لوگوں نے بھی آپس میں باتیں شروع کر دیں، میں نے ان سے کہا خاموش ہو جاؤ اور اپنی جگہوں پر آرام سے بیٹھے رہو، امیرالمومنین کے ساتھ کوئی غیر معمولی نوعیت کا واقعہ پیش آیا ہے۔ ابو حازمؒ کہتے ہیں کہ جب امیرالمومنین کو بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو لوگ آپ کی بات سننے کے لیے بے تاب تھے۔

میں نے عرض کیا: اے امیرالمومنین! ہم نے آپ سے عجیب و غریب بات دیکھی ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے مجھے میری اس حالت و کیفیت میں دیکھا ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا، جب میں تمہارے درمیان موجود باتیں کر رہا تھا تو میرے اوپر مدہوشی کی کیفیت طاری ہو گئی تھی تو اسی عالم میں میں نے دیکھا کہ: قیامت قائم ہو چکی ہے اور تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو چکی ہیں لوگوں کی ایک سو بیس صفیں میدان حشر میں قائم ہیں جن میں سے امت محمدیہ کی امت کی 80 صفیں تھیں باقی امتوں کی 40 صفیں تھیں۔

چنانچہ جب کرسی رکھی گئی، ترازو لگا دیا گیا، اور اعمال نامے تقسیم کردیے گئے، پھر ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا: ’’عبداللہ بن ابو قحافہ (حضرت ابوبکر صدیقؓ) کہاں ہیں؟ چنانچہ بڑی عمر کے ایک شخص جوبالوں پر مہندی کا خضاب لگائے ہوئے تھے سامنے آئے اورفرشتوں نے انہیں سہارا دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کردیا، ان سے آسان سا حساب لیاگیا پھر ان کو جنت کے دائیں جانب جانے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘ پھر ایک ندا لگانے والے نے ندا لگائی: ’’عمر بن خطاب کہاں ہیں؟

چنانچہ ایک بڑی عمر کے شخص طویل القامت، مہندی کا خضاب لگائے ہوئے حاضر ہوئے اور فرشتوں نے انہیں بھی سہارا دے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا کر دیا، چنانچہ ان سے بھی برائے نام حساب لیا گیا اور ان کو بھی جنت کے دائیں جانب داخل ہونے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘ پھر ایک صدا لگانے والے کی صدا گونجی: ’’کہاں ہیں عثمان بن عفان؟ چنانچہ زرد رنگ کی داڑھی والی ایک بزرگ شخصیت ظاہر ہوئی فرشتوں نے انہیں بھی سہارا دے کر اللہ کے سامنے کھڑا کر دیا ان سے بھی آسان حساب لیا گیا اور ان کے لیے جنت کے دائیں جانب میں داخلے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘

پھر ایک پکارنے والے نے پکارا: ’’علی بن طالب کہاں ہیں؟ چنانچہ ذی وجاہت شخصیت جن کے سر کے بال سفید تھے اور پنڈیاں پتلی تھیں ظاہر ہوئی اور فرشتوں نے انہیں بھی پکڑ کر اللہ کے سامنے پیش کر دیا ان سے بھی آسان حساب لیا گیا اور پھر جنت کے دائیں جانب داخلے کا حکم دے دیا گیا۔‘‘ حضرت عمرؒ فرماتے ہیں کہ جب میں نے دیکھا کہ میرے معاملے کا وقت قریب آ گیا ہے تو میں گھبرانے لگا اور سوچنے لگا کہ پتہ نہیں جو شخص حضرت علیؓ کے بعد آئے گا اس کا کیا بنے گا؟ اللہ تعالیٰ اس کے متعلق کیا فیصلہ فرمائیں گے؟

اسی اثناء میں پھر ایک منادی کی ندا فضا میں گونجی: ’’عمر بن عبدالعزیز کہاں ہیں؟‘‘ میں گھبراہٹ کے عالم میں اٹھا مگر منہ کے بل گر پڑا، میں نے پھر اٹھنے کی کوشش کی مگر پھر چہرے کے بل گر گیا اسی طرح تیسری مرتبہ بھی کھڑے ہونے کی کوشش میں گر پڑا، چنانچہ وہ فرشتے آئے اور انہوں نے مجھے پکڑ کر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے سے ’’نقیہ، قطمیر اور فیتل‘‘ کے متعلق پوچھا اور میرے ہر اس فیصلے کے متعلق مجھ سے پوچھا جو میں نے کیا تھا حتیٰ کہ مجھے یہ خیال دامن گیر ہونے لگا آج میری نجات نہیں ہو سکتی۔۔۔

پھر میرے رب نے مجھ پر فضل فرمایا اور اپنی رحمت کا چھینٹا میرے اوپر بھی برسا دیا اور مجھے جنت کے دائیں جانب داخل ہونے کا حکم دے دیا۔‘‘ چنانچہ جب میں دو فرشتوں کے ساتھ ساتھ اپنی منزل کی طرف جا رہا تھا تو راستے میں، میں نے ریت پر ایک مردار چیز کو پڑے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ مردہ چیز کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آپ خود اس کے قریب ہو کر اس سے پوچھ لیں، چنانچہ میں اس کے قریب ہوا اور اپنے پاؤں سے زمین کو تھوڑا سا کریدا اور اس سے پوچھا: تم کون ہو؟

اس نے مجھ سے پوچھا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں عمر بن عبدالعزیز ہوں۔ اس نے مجھ سے پوچھا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا اور تمہارے ساتھیوں کا کیابنا؟ میں نے کہا: ان چاروں حضرات کو تو اللہ تعالیٰ نے جنت کے دائیں جانب داخلے کا حکم دے دیا تھا پھر ان کے بعد مجھے علم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے بعد آنے والے کے بارے میں کیا حکم صادر فرمائیں گے؟ اس نے کہا: اللہ نے تمہارے متعلق کیا فیصلہ فرمایا ہے؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرمایا اور مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لیا اور میرے لیے جنت کے دائیں جانب داخلے کا حکم فرما دیا۔

پھر میں نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے جواب دیا: میں حجاج بن یوسف ثقفی ہوں۔ میں نے پوچھا: اے حجاج! اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا فیصلہ فرمایا؟ اس نے جواب دیا: اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق نہایت سخت اور شدید فیصلہ فرمایا ہے اور میں نے جتنے انسانوں کو قتل کیا تھا تو ہر ہر مقتول کے بدلے میں مجھے بھی بار بار قتل کیاگیا اور اب میری یہ حالت ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے فیصلے کا منتظر ہوں جس فیصلے کا انتظار ہر موحد کو ہوتا ہے کہ جنت کی طرف یا جہنم کی طرف جانے کا حکم ملتا ہے۔‘‘ ابو حازم کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے خواب کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ یقین ہو گیاکہ اللہ تعالیٰ اس امت محمدیہؐ میں کسی مسلمان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں داخل نہیں فرمائیں گے۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



Self Sabotage


ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…