حضرت عمرؒ کے ایک غلام بیان کرتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمرؒ روتے ہوئے اٹھے اور مسلسل روتے رہے حتیٰ کہ میں جاگ گیا۔ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمرؒ کے ساتھ رات گزارتا اور بسااوقات ایسا ہوتا کہ میں ان کے بہت زیادہ رونے کی بناء پر سو نہ سکتا تھا اور آپ اکثر راتوں میں بہت زیادہ روتے تھے۔ چنانچہ ایک ایسی ہی رات تھی، جب صبح ہوئی تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا
’’اے بیٹے! اس میں کوئی خیر نہیں کہ تیری بات سنی جائے اور اس کو مان لیا جائے، خیر و فلاح تو صرف اس بات میں ہے کہ تو اپنے رب کو پہچان لے اور اس کی اطاعت میں لگ جائے۔ اے بیٹے! آج تم اس وقت تک کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا جب تک کہ صبح نہ ہو جائے اور پوری طرح دن نہ چڑھ جائے مجھے اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں لوگ میری اس حالت سے واقف نہ ہو جائیں۔‘‘ غلام نے عرض کیا ’’امیرالمومنین! میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں! میں نے آپ کو آج رات بے تحاشا روتے ہوئے دیکھا حالانکہ میں نے آپ کو پہلے کبھی اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘؟ غلام کے اس سوال کو سن کر پھر حضرت عمرؒ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی اور آپ زار و قطار رونے لگے، پھر کچھ دیر بعد آپ نے فرمایا ’’اے بیٹے اللہ کی قسم! مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے حساب و کتاب کے لیے کھڑے ہو نے کا وقت یاد آ گیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر حضرت عمرؒ پر بے ہوشی طاری ہو گئی اور دن چڑھنے تک آپ کو بے ہوشی سے افاقہ نہ ہوا۔ غلام کہتا ہے کہ میں نے اس کے بعد آپ کو کبھی مسکراتے ہوئے بھی نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی!!