بدھ‬‮ ، 17 ستمبر‬‮ 2025 

یہی رختِ سفر میر کارواں کے لیے

datetime 9  جون‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ مجلس میں بیٹھے تھے، اتنے میں لوگ چلے گئے اور حضرت عمرؒ بھی اپنے گھر والوں کے پاس چلے گئے اتنے میں ایک اعلان کرنے والے نے اعلان کیا: ’’جماعت کھڑی ہونے والی ہے۔‘‘ بعض حضرات شدید گھبرائے کہ کہیں لوگوں میں کوئی انتشار نہ پھیل گیا ہو یا کوئی بڑا حادثہ نہ پیش آ گیا ہو۔ جویریہ کہتے ہیں کہ یہ صرف اس وجہ سے تھا کہ حضرت عمرؒ نے ’’مزاحم‘‘ کو بلایا تھا۔

آپ نے اس سے فرمایا: ’’اے مزاحم! کہ لوگ ہمیں تحفے تحائف دیتے ہیں، اللہ کی قسم! ان کے لیے ہمیں تحائف دینا درست نہیں ہے، اور ہمارا ان تحائف کو قبول کرنا صحیح نہیں ہے اور اس معاملے میں اللہ کے سوا کوئی میرا محاسبہ کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ مزاحم بولے ’’اے امیرالمومنین! کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے کتنے بیٹے، بیٹیاں ہیں۔‘‘ مزاحم کہتے ہیں کہ یہ سن کر حضرت عمرؒ کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں اور پھر ان کی آنکھوں سے آنسو ان کے گالوں کے بوسے لینے لگے، آپ اپنے چہرے سے آنسوؤں کو پونچھتے جا رہے تھے اور یہ کہتے جا رہے تھے کہ ’’میرے بچوں کے رزق کا اللہ مالک ہے۔‘‘ اس واقعہ کے بعد مزاحم حضرت عمرؒ کے صاحبزادے عبدالملک کے پاس چلے گئے اجازت طلب کی، اجازت ملی تو اندر داخل ہوئے، عبدالملک قیلولے کی غرض سے لیٹ چکے تھے۔ انہوں نے مزاحم سے کہا: آپ کو اس وقت کس چیز نے یہاں آنے پر مجبور کیا ہے؟ کیا کوئی بڑی بات پیش آئی ہے۔ مزاحم نے جواب دیا: جی ہاں! آپ کے لیے اور آپ کے سب بہن بھائیوں کے لیے بہت بڑا سانحہ پیش آیا ہے۔ عبدالملک نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ مزاحم نے کہا: مجھے امیرالمومنین نے بلایا تھا۔ پھر حضرت عمرؒ نے مزاحم سے جو کہا یعنی ان تحائف کو رد کرنے کے بارے میں جن سے آپ کی اولاد کا گزر بسر ہوتا تھا، اس نے عبدالملک کو بتایا۔ عبدالملک نے پوچھا آپ نے کیا جواب دیا؟

مزاحم نے کہا: میں نے کہا ’’امیرالمومنین آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے کتنے بچے ہیں؟ عبدالملک نے پوچھا: انہوں نے کیا جواب دیا؟ مزاحم نے بتایا: وہ رونے لگے اور انہوں نے کہا کہ ان کے رزق کا اللہ تعالیٰ نگہبان ہے۔ یہ سن کر عبدالملک نے کہا ’’اے مزاحم! تم کتنے برے ہم نشین ہو! یہ کہہ کر جلدی سے اٹھے اور اپنے والد ماجد کے دروازے کے پاس چلے گئے اور اندر جانے کی اجازت چاہی۔ نگران نے جواب دیا کہ امیرالمومنین قیلولے کے لیے لیٹ چکے ہیں۔

عبدالملک نے کہا ’’مجھے اندر آنے کی اجازت دے دیجئے۔‘‘ نگران نے پھر کہا: کیا آپ لوگ امیرالمومنین پر نرمی نہیں کرتے، ان کے پاس دن و رات کے لمحات میں بس یہی ایک لمحہ آرام کرنے کے لیے ہے۔ عبدالملک اجازت کے لیے اصرار کرتے رہے۔ اسی اثناء میں حضرت عمرؒ نے ان کی گفتگو سن لی۔ آپؒ نے پوچھا: کون ہے۔ بتایاگیا: عبدالملک ہیں۔ آپ نے فرمایا ’’اسے اندر آنے کی اجازت دے دو۔‘‘ عبدالملک اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئے جب کہ حضرت عمرؒ قیلولے کے لیے چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے۔

آپؒ نے پیارے بھرے لہجہ میں پوچھا ’’اے پیارے بیٹے! تمہیں اس وقت آنے کی کیا ضرورت درپیش ہوئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: مجھے مزاحم نے سارا واقعہ بتا دیا ہے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا: پھر تم نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ عبدالملک نے جواب دیا ’’میری رائے یہ ہے کہ آپ کی بات کو عملی شکل دے دی جائے۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمرؒ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور اللہ کا شکر ادا کیا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے ایسی اولاد عطا فرمائی جو دین کے کاموں میں میری مددگار ہے۔‘‘

پھر حضرت عمرؒ نے فرمایا میرے پیارے بیٹے میں ظہر کی نماز پڑھوں گا اور پھر منبر پر چڑھ کر سب لوگوں کے سامنے ان تحائف کو واپس کرنے کا اعلان کروں گا۔ عبدالملک نے سن کر کہا: اے امیرالمومنین! آپ کو کیا معلوم کہ آپ ظہر کی نماز تک زندہ بھی رہیں گے یا نہیں؟ حضرت عمرؒ نے فرمایا: اس وقت لوگ جا چکے ہیں اور گھروں میں استراحت کر رہے ہوں گے۔ عبدالملک نے کہا: آپ اپنے اعلان کرنے والے کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو جمع ہونے کا اعلان کر دے تو لوگ جمع ہو جائیں گے۔

چنانچہ اعلان کرنے والے نے اعلان کیا اور لوگ جمع ہو گئے۔ پھر حضرت عمرؒ اپنے گھر سے نکل کر مسجد پہنچے اور منبر پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی پھر فرمایا: ’’امابعد! وہ لوگ ہمیں تحفے و تحائف دیا کرتے تھے، اللہ کی قسم! ان کے لیے ہمیں تحفے دینا درست نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے لیے ان تحفوں کو قبول کرنا درست ہے اور میرے لیے اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی میرا محاسبہ کرنے والا نہیں ہے۔

خبردار! سن لو میں ان تمام عطیوں اور تحفوں کو واپس لوٹاتا ہوں اور اس کی ابتداء میں اپنی ذات سے اور اپنے گھر والوں سے کرتا ہوں!‘‘ پھر آپؒ نے حضرت مزاحم کو ان تحائف کی دستاویزات پڑھنے کا حکم دیا۔ چنانچہ مزاحم مسلسل دستاویزات پڑھتے رہے اور حضرت عمرؒ مسلسل ان تحفوں کو واپس لوٹاتے رہے یہاں تک کہ نماز ظہر کی اذان ہو گئی۔ اس طرح آپ نے اپنے خاندان کی ایک ایک جاگیر واپس کر دی اور ایک نگینہ بھی اپنے پاس نہ رہنے دیا۔



کالم



انسان بیج ہوتے ہیں


بڑے لڑکے کا نام ستمش تھا اور چھوٹا جیتو کہلاتا…

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ…

انجن ڈرائیور

رینڈی پاش (Randy Pausch) کارنیگی میلن یونیورسٹی میں…

اگر یہ مسلمان ہیں تو پھر

حضرت بہائوالدین نقش بندیؒ اپنے گائوں کی گلیوں…

Inattentional Blindness

کرسٹن آٹھ سال کا بچہ تھا‘ وہ پارک کے بینچ پر اداس…

پروفیسر غنی جاوید(پارٹ ٹو)

پروفیسر غنی جاوید کے ساتھ میرا عجیب سا تعلق تھا‘…

پروفیسر غنی جاوید

’’اوئے انچارج صاحب اوپر دیکھو‘‘ آواز بھاری…

سنت یہ بھی ہے

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ اس مہینے…

سپنچ پارکس

کوپن ہیگن میں بارش شروع ہوئی اور پھر اس نے رکنے…

ریکوڈک

’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…