محمد بن کعب قرضیؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا وہ زمانہ بھی پایا ہے کہ جب وہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے مدینہ منورہ کے گورنر مقرر تھے اور اس وقت وہ ایک خوبرو اور صحت مند و توانا جوان تھے۔ لیکن جب آپ منصبِ خلافت پر فائز ہوئے تو پھر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ میں ناقابل یقین تبدیلی آ چکی تھی، میں آپ کے ماضی کو سوچتے ہوئے ٹکٹکی باندھ کر آپ کو مسلسل دیکھتا رہا۔ آپؒ نے میری یہ کیفیت دیکھی تو فرمایا: تم تو میری طرف اس طرح نہیں دیکھا کرتے تھے، یعنی آج تمہیں کیا ہوا کہ اس طرح حیرانگی سے دیکھ رہے ہو۔
محمد بن کعبؒ نے عرض کیا: میں حیرت زدہ رہ گیا ہوں۔۔۔! آپ نے فرمایا، تمہیں کس چیز نے تعجب میں ڈالا ہے؟ میں نے کہا: آپ کی جسمانی حالت نے۔ آپ کا رنگ تبدیل ہو گیا ہے، یعنی رنگ کی تر و تازگی مٹ چکی ہے، بال پراگندہ ہو گئے، جسم کمزور ہو گیا ہے۔ آپؒ نے فرمایا: اے ابن کعب! تم دنیا میں مجھے اس حالت میں دیکھ کر اتنے حیران ہو گئے ہو، تمہاری اس وقت کیا حالت ہو گی؟ اگر تم مجھے میری قبر میں تین دن کے بعد دیکھ لو جب کہ میرے جسم کا جوڑ توڑ جدا ہو چکا ہو گا، رگ رگ سے پیپ بہہ رہی ہو گی، کیڑے دوڑ رہے ہوں گے، اس وقت تم کس قدر مجھے ناپسند کرو گے!!‘‘