ابن عمرؓ بڑے عبادت گزار تھے، اوقات کا بیشتر حصہ عبادت الٰہی میں صرف ہوتا، نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ رات بھر نمازیں پڑھتے تھے صبح کے قریب مجھ سے پوچھتے کہ کیا صبح کی سفیدی نمودار ہو گئی ہے؟ اگر میں ہاں کہتا تو پھر طلوع سحر تک استغفار میں مشغول ہو جاتے اور اگر نہیں کہتا تو بدستور نماز میں مشغول رہتے۔
روزانہ کا معمول تھا کہ مسجد نبوی سے دن چڑھے نکلتے، بازار کی ضروریات پوری کرتے پھر نماز پڑھ کر گھر جاتے۔ محمد بن زید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمرؓ رات بھر میں چار پانچ مرتبہ اٹھ کر نمازیں پڑھتے تھے۔ ابن سیرین کا بیان ہے کہ رات میں پورا قرآن ختم کر دیتے، حج کسی سال ناغہ نہیں ہوا حتیٰ کہ فتنہ کے زمانہ میں بھی جب مکہ بالکل غیر مامون حالت میں تھا، انہوں نے حج نہ چھوڑا، چنانچہ ابن زبیرؓ اور حجاج کی جنگ کے زمانہ میں جب انہوں نے حج کا قصد کیا تو لوگوں نے روکا کہ یہ حج کا موقعہ نہیں، فرمایا اگر کسی نے روک دیا تو اسی طرح رک جاؤں گا جس طرح آنحضرتﷺ کو دشمنوں نے روکا تھا (صلح حدیبیہ کے زمانہ میں) تو آپؐ رک گئے تھے اور اگر نہ روکا تو سعی و طواف پورا کروں گا، چنانچہ صرف اس لئے کہ آنحضرتﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کی نیت کی تھی، انہوں نے اس موقع پر عمرہ کی نیت کی تو آنحضرتﷺ کے اس واقعہ سے مشابہت ہو جائے وہ یوں بھی تمام مسائل کے بڑے واقف کار تھے اور بکثرت حج کئے تھے، اس لئے صحابہؓ کی جماعت میں مناسک حج کے سب سے بڑے عالم مانے جاتے تھے، معمولی سے معمولی عبادت بھی نہ چھوٹتی تھی، چنانچہ ہر نماز کے لئے تازہ وضو کرتے تھے، مسجد جاتے وقت نہایت آہستہ آہستہ چلتے کہ جتنے قدم زیادہ پڑیں گے اتنا ہی زیادہ اجر ملے گا۔