باندیوں اور غلاموں سے اس زمانہ میں وہ سلوک نہیں کیا جاتا تھا جو عام آزاد لوگوں سے کیا جاتا۔ آپ نے ان سے یہ غیر مساویانہ سلوک ختم کر دیا اور آپ ان سے اتنا مساویانہ سلوک اور برتاؤ کرتے تھے کہ کبھی کبھی خود بھی ملازمین کی خدمت کرتے تھے جس طرح کہ ملازمین ان کی خدمت کرتے۔ ایک مرتبہ ایک خادمہ آپ کو پنکھا جھل رہی تھی۔ پنکھا جھلتے جھلتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آپ نے جونہی
اس کو سوتے دیکھا اس کے ہاتھ سے پنکھا لے کر اس کو جھلنا شروع کر دیا۔ اس کی آنکھ کھلی تو گھبرا کر چلائی۔ آپ نے اس سے فرمایا: کوئی بات نہیں آخر تم بھی میری طرح ایک انسان ہو۔ تمہیں بھی گرمی لگتی ہے۔ جس طرح تم مجھے پنکھا جھل رہی تھی۔ میں نے بھی جھلنا مناسب سمجھا۔ کہنے والے نے حضرت عمرؒ کے بارے میں بھی کہا تھا ’’وہ دیکھو عمرؒ کی شان، خود پیدل اور گھوڑے پر غلام۔‘‘