غلطی کرنا انسان کے خمیر میں شامل ہے۔ وہ انسان ہی کیا جو خطا کا پتلا نہیں۔ انسان اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتا ہے لیکن انسان کمزور ہے اور اس کی مرضی ہمیشہ ہر چیز میں نہیں چل سکتی۔ انسان جتنی مرضی کوشش کرے یہ نا ممکن ہے کہ اس سے کبھی کوئی غلطی سر زرد نہ ہوئی ہو۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ وہ انسان جنہیں اللہ نے تمام انسانوں سے زیادہ عقل سے نوازہ تھا انہوں نے کیسی کیسی غلطیاں کیں.
آئن سٹائن جب بھولا سا بچہ تھا تو وہ پورے چار سال اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ نارمل بچہ دو سال کی عمر سے آوازیں نکالنے لگتا ہے مگر آئن سٹائن آواز بھی نہیں نکالتا تھا۔نیوٹن کی ایلیمنٹری کی ٹیچر اس کے بارے میں یہ بولی تھی کہ یہ بچہ زیادہ روشن دماغ نہیں ہے۔تھامس ایڈسن کی میڈم نے اس کی ماں کے نام خط لکھا تھا کہ آپ کا بچہ اتنا بے وقوف اور نکما ہے کے کسی چیز پر دھیان نہیں دیتا براہ مہربانی اس کو خود ہی گھر پر پڑھا لیں۔ وولز ورتھ جب اکیس سال کا تھا تو جس سپر سٹور پر کام کرتا تھا اس کا مالک اسے اتنا حقیر جانتا تھا کہ اسے کوئی سیل کلوز نہیں کرنے دیتا تھا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ وولز ورتھ بہت سادہ تھا۔اس میں سیلز کلوز کرنے والی ہوشیاری اور چالاکی نہیں تھی۔ باسکٹ بال کا شہنشاہ مائیکل جورڈن ہائی سکول کی باسکٹ بال ٹیم سے خارج کر دیا گیا تھا۔ بیچارے باب کاؤزی کے ساتھ بھی یہی نا انصافی کی گئی تھی۔ ایک اخبار کے ایڈیٹر نے والٹ ڈزنی جیسے جینیس کو نوکری سے نکال دیا تھا کیونکہ وہ کہتا تھا کہ والٹ ڈزنی تخیلاتی لحاظ سے فارغ تھا اور اس کا کوئی آئیڈیا اوریجینل نہیں تھا۔ امریکہ کا سب سے مشہور صدر ونسٹن چرچل جب چھٹی جماعت میں تھا تو اس کو فیل کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ سارے ٹیسٹ نہیں دیا کرتا تھا۔ یہ تاریخ کے وہ واقعات ہیں جو ہمیں سکھاتے ہیں کہ کوئی بھی انسان کتنا بھی عقلمند کیوں نہ ہو جائے وہ ہمیشہ خطا کا پتلا ہی رہتا ہے اور زیادہ تر جن بچوں کو ہم مشکل گردانتے ہیں
وہ مشکل اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ مختلف ہوتے ہیں۔دنیا ایک سیٹ پیٹرن پر چل رہی ہے اور ہمیں عادت ہے کہ سب نے کس طرح ایکٹ کرنا ہے، لیکن اگر کوئی مختلف نظر آتا ہے تو باقی انسان اس بیچارے کو غلط کہتے رہتے ہیں کیونکہ وہ باقیوں کی طرح نہیں ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک دوسرے کی مختلف عادات اور فطرت کو نکتہ چینی کی نگاہ سے دیکھنے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے سے مختلف چیزیں سیکھیں۔ جتنے بڑے بابے گزرے ہیں،
وہ بڑا مشکل بچپن دیکھ کر گئے ہیں۔ کسی بچے کو نالائق بول کر آپ اس کو دبا سکتے ہیں لیکن جب وہ روشن آفتاب کی طرح دنیا میں چمکے گا اور اپنے نام کا سکہ بٹھا دیگا تو دنیا آپ کو ہی پاگل سمجھے گی جس نے ان بچوں کو حقیر جانا ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ کسی کو بھی دباؤ مت۔ بلکہ ہر ایک کی مختلف فطرت کو پہچانو اور اسے اس کو استعمال کرنے کی آزادی دو۔ دنیا رنگ برنگے انسانوں سے بھری پڑی ہے اور مزہ ہی اس بات کا ہے کہ ہر پیمانے کا رنگ جدا ہے اور ہر پیمانہ اپنی جگہ انمول ہے۔