علامہ ابن جوزیؒ نے لکھا ہے کہ شعراء اور خطباء کی بارگاۂ خلافت میں یہ کسمپرسی اور خستہ حالی دیکھ کر ایک روز اس وقت کے مشہور شاعر جریر نے ایک ممتاز فقیہ کی وساطت سے سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کو یہ اشعار لکھ کر بھیجے۔ ’’اے وہ قاری جس کے عمامہ کا شملہ لٹک رہا ہے۔۔ اب یہ تیرا زمانہ ہے، میرا زمانہ تو گزر گیا‘‘۔
’’میرا یہ پیغام ہمارے خلیفہ کو پہنچا دے اگر تیری اس سے ملاقات ہو کہ میں دروازہ پر بیڑیوں میں جکڑا ہوا ہوں‘‘۔ عون بن محمد نے سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ سے مل کر کہا کہ جریر سے میری عزت و آبرو بچائیے۔ آپ نے جریر کو بارگاہ خلافت میں اذن باریابی دیا۔ اس نے ایک قصیدہ پڑھا۔ جس میں اہل مدینہ کے مصائب و آلام اور مشکلات کا ذکر تھا۔ سیدنا عمر ثانیؒ نے ان کے لیے غلہ اور نقد روپیہ بھیجا اور جریر سے پوچھا: تم کس جماعت کے ہو، مہاجرین سے یا انصار سے یا ان کے اعزاز و اقرباء سے یا مجاہدین سے؟ اس نے کہا: میں ان میں سے کسی سے نہیں ہوں۔ فرمایا، پھر مسلمانوں کے مال میں سے تمہارا کیا حق ہے؟ اس نے کہا ’’اگر آپ میرے حق کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں میرا حق مقرر فرمایا ہے۔ میں ’’ابن سبیل‘‘ مسافر ہوں۔ دور دراز سے سفر کرکے آپ کے دروازے پر آ کر ٹھہرا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اچھا اب جبکہ تم میرے پاس آ ہی گئے ہو۔ تو میں اپنے ذاتی خرچے سے تمہیں بیس درہم دیتا ہوں یہ لے لو۔ اس حقیر رقم پر تم خواہ میری تعریف کرو یا مذمت۔ میری مدح کرو یا ہجو۔ جریر نے اس حقیر رقم کو بھی غنیمت سمجھ کر لے لیا اور باہر آگیا۔ دوسرے شعراء نے جو اس کو بارگاہ خلافت سے باہر نکلتے دیکھا۔ تو دوڑ کر پوچھا ’’کہو ابو حزرہ! کیسا معاملہ رہا؟‘‘ جریر نے جواب دیا ’’اپنا راستہ ناپو، یہ شخص شعراء کو نہیں بلکہ گداگروں کو دیتا ہے۔‘‘