حسن قطار کہتے ہیں کہ میں حضرت عمرؒ کی زمانۂ خلافت میں بکریوں کے دودھ دھویا کرتا تھا، چنانچہ میں ایک دن ایک چرواہے کے پاس سے گزرا تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس کی بکریوں کے ریوڑ میں تیس کے قریب بھیڑئیے ہیں میں ان کو کتے سمجھا۔ کیونکہ میں نے پہلے بھیڑیوں کو نہیں دیکھا تھا۔ میں نے تعجب سے چرواہے سے پوچھا کہ تم اتنے کتوں کا کیا کرتے ہو۔ تو اس نے مجھے جواب دیا کہ: اے بیٹے! یہ کتے نہیں یہ بھیڑیے ہیں۔ میں ششدر رہ گیا اور کہا: اللہ بے عیب ہے! بھیڑئیے بکریوں کے جھڑمٹ میں ہیں اور انہیں نقصان
بھی نہیں پہنچا رہے۔۔۔ اس چرواہے نے کہا کہ جب سر ٹھیک ہو تو جسم پر کوئی تکلیف نہیں آتی، یعنی یہ امیرالمومنین کے عدل کی برکت ہے۔ موسیٰ بن ایمن الراعی کہتے ہیں وہ محمد بن عینیہ کی بکریاں چرایا کرتے تھے اور حالت یہ تھی کہ شیر اور بکری اور دوسرے تمام جنگلی جانور ایک ہی جگہ ہوتے اور کوئی کسی پر حملہ آور نہ ہوتا۔ ایک روز ایسا ہوا کہ ایک بھیڑیا ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا یہ حالت دیکھ کر میں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز کا انتقال ہو گیا ہے چنانچہ جب پتہ چلا تو اسی حالت آپ کا انتقال ہوا تھا۔