عبدالملکؒ کے فوت ہونے کے بعد حضرت عمرؒ جب ان کی تجہیز و تکفین اور دفن سے فارغ ہوئے اور قبر کو ہموار کر چکے تو آپ کی قبر پر قبلہ رو کھڑے ہوئے اور آپ کے چاروں طرف لوگ کھڑے تھے، اس وقت آپ نے فرمایا: ’’بیٹا! اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتیں نچھاور کرے تمہاری پیدائش باعث مسرت تھی اور تمہاری اٹھان نیکیوں سے بھرپور تھی، مجھے یہ بھی گوارا نہ تھا کہ میں تجھے آواز دوں،
اور تو میری آواز پر لبیک کہے یعنی مجھے تمہاری تھوڑی سے تکلیف بھی گوارا نہ تھی۔ آج مجھے تم کو اس جگہ رکھ کر جس جگہ تم کو اللہ تعالیٰ نے لوٹا دیا ہے بے انتہاء مسرت ہو رہی ہے اور تمہارے اجر و ثواب سے جو مجھے صلہ ملنے والا ہے اس کی مجھے بہت توقع ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو درگزر فرمائے اور تمہاری نیکیوں کا تمہیں بہترین بدلہ عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ تمہارے لیے دعا کرنے والے پر اپنا رحم فرمائے خواہ وہ دعا کرنے والا آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت، حاضر ہو یا غائب یعنی جو بھی خلوص سے تمہارے لیے دعا کرے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلے پر راضی ہیں اور اس کے حکم کے آگے سرنگوں ہیں۔ پھر جب حضرت عمرؒ اپنے لختِ جگر کی قبر سے واپس آئے تو لوگوں کو حضرت عمرؒ کے قابل فجر فرزند کی وفات کا بڑا صدمہ تھا، لوگ ہمیشہ اس پر افسوس کرتے رہیں گے اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں گے۔ پھر جب آپ اپنے گھر آئے تو لوگ تعزیت کرنے کے لیے آئے۔ آپ نے ان کے سامنے صبر کی تلقین کی اور فرمایا: ’’جو چیز عبدالملک پر اتری اسے ہم بخوبی جانتے تھے اور جب وہ واقع ہو گی تو ہمارے لیے تو یہ چیز اجنبی اور انوکھی نہ تھی۔