سیدنا عمرؒ کا سعادت مند اور نیک و پارسا بیٹا عبدالملک جب اپنے اردگرد غیر شرعی ماحول دیکھتا اور اہل اقتدار کے مظالم کا مشاہدہ کرتا تو اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔ اس کی یہ کڑھن اس کو دبلا کرتی رہی حتیٰ کہ وہ انتہائی لاغر اور کمزور ہو کر مرض الموت میں مبتلا ہو گیا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 19 سال تھی جب کہ عام بچے اس عمر میں لہو و لعب کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس بیماری میں بھی خوش تھا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کو اپنے اس بچے سے بے حد محبت تھی وہ ان کی عیادت کے لیے جاتے اور پوچھتے: بیٹا! تمہارا کیا حال ہے؟ عبدالملک اس خیال سے کہ میرے باپ کو صدمہ نہ ہو اپنا حال چھپاتے اور کہتے الحمدللہ! میں اچھا ہوں۔ لیکن حضرت عمرؒ مرض کو بھی دیکھ رہے تھے کہ جان لیوا ہے اور مریض کو بھی دیکھ رہے تھے کہ موت کے کنارے پر پہنچا ہوا ہے اور آپ کو یہ بھی پتہ تھا کہ بیٹا اپنی موت سے خوش ہے، اس لیے ایک روز انہوں نے کہا: ’’بیٹا! مجھ سے اپنی طبیعت کے بارے میں صحیح صحیح بات کرو کیونکہ تمہارے بارے میں مجھے تمہاری موت ہی زیادہ پیاری ہے۔ اب عبدالملک نے کہا ’’ابا جان! میں اپنے کو موت کی آغوش میں پاتا ہوں۔ لہٰذا آپ آخرت کے اجر کے لیے صبر سے کام لیں کیونکہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ کا اجر مجھ سے بہتر ہے۔ بیٹے کے منہ سے یہ الفاظ سن کر باپ کا دل بیٹھ گیا۔ پھر حضرت عمرؒ یہ کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے کہ بیٹا، بخدا! میری میزان میں تمہارا ہونا مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے کہ تمہاری میزان میں میں ہوں، اور پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ ابھی وہ نماز پڑھ ہی رہے تھے کہ آپ کے غلام مزاحم نے عبدالملکؒ کی موت کی خبر دی۔ اس درد ناک خبر کا سننا تھا کہ حضرت عمرؒ بے ہوش ہو کر گر پڑے۔