حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارہ بیٹے تھے لیکن ان میں عبدالملک سب سے زیادہ پاکباز اور نیک سیرت تھے۔ سیدنا عمرؒ بھی ان کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ عبدالملک اپنے والد کے دوش بدوش سرگرم عمل رہتے تھے حتیٰ کہ مغصوبہ زمینوں کے معاملات میں ان کی رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ میمون بن مہران کہتے ہیں کہ حضرت عمرؒ نے مجھے، مکحول اور قلابہ کو بلایا اور فرمایا: ’’تم لوگ ان مالوں کے بارے میں جو لوگوں سے ظلماً چھینے گئے ہیں، کیا کہتے ہو؟‘‘ مکحول نے جو رائے پیش کی اسے حضرت عمرؒ نے پسند نہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ آئندہ احتیاط برتی جائے اور سابقہ مالوں کو بحال رکھیں۔ میں نے عرض کیا: ’’امیرالمومنین! آپ اپنے صاحبزادے عبدالملک کو بلا لیں کیونکہ وہ بھی نہایت اہل ہیں اور ہم سے کم نہیں ہیں۔ وہ حدیث و فقہ پڑھ چکے ہیں اور اب ان کا شمار فقہائے مدینہ کی صف اول کے لوگوں میں ہوتا ہے۔‘‘ جب آپ آ گئے تو آپ نے اس سے بھی یہی سوال کیا۔ ’’عبدالملک نے جواب دیا کہ میرے خیال میں تو آپ انہیں حق داروں کو واپس کر دیں اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو غاصبوں کے اس غصب میں آپ بھی شریک سمجھے جائیں گے۔‘‘