حضرت عمرؒ نے موت کے لیے بالکل تیار ہونے کے بعد ایک ذمی سے قبر کے لیے زمین خریدی۔ اس نے قیمت لینے سے انکار کر دیا اور یہ کہا کہ میرے لیے یہ بڑی سعادت اور خیر و برکت کا باعث ہے کہ آپ میری زمین میں دفن ہوں لیکن آپؒ نے اس کے اس عذر کو قبول نہ کیا اور نہایت اصرار کے ساتھ اسے زمین کی قیمت ادا کی پھر تجہیز و تکفین اور دفن کے بارے میں کچھ ضروری وصیتیں کیں
اور رسول اللہؐ کے ناخن اور موئے مبارک جو ایک مسلمان کا نہایت قیمتی سرمایہ ہیں انہیں اپنے کفن میں رکھنے کی ہدایت اور وصیت فرمائی۔ جب روح کے قفس عنصری سے نکلنے کا وقت آیا تو اس وقت زبان پر یہ آیت تھی۔ ’’یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں تو برتری چاہتے ہیں اور نہ فساد اور انجام کار متقیوں کے لیے ہے‘‘ اسی آیت کی تلاوت کرتے کرتے روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ روایات میں یہ بھی ہے کہ جب آپ کی بیماری زور پکڑ گئی اور بچنے کی کوئی امید نہ رہی تو گرجا کا پادری آپ کے پاس ہدیہ کے طور پر گرجا کے درختوں کے نئے پھل لایا حضرت عمرؒ نے یہ پھل نہایت خوشی اور مسرت سے قبول کر لیے اور حکم فرمایا کہ پادری کو اس کی قیمت ادا کر دی جائے لیکن پادری نے ان پھلوں کی قیمت لینے سے انکار کر دیا۔ آپؒ نے اس کو سمجھا بجھا کر قیمت لینے پر راضی کر لیا چنانچہ اس نے قیمت لے لی۔ پھر سیدنا عمرؒ نے اس پادری سے کہا کہ معلوم ہوتا ہے میں اس بیماری سے صحت یاب ہونے والا نہیں۔ آپ کے منہ سے یہ الفاظ سن کر پادری کو سخت صدمہ ہوا اور اس کے دل میں رقت پیدا ہو گئی جس سے وہ رونے لگا۔ پھر سیدنا عمرؒ نے اس سے فرمایا: مجھے پتہ چلا ہے کہ اس گرجا کے ساتھ جو ملحقہ زمین ہے وہ تمہاری ملکیت ہے اس زمین میں سے تم مجھے ایک سال کے لیے میری قبر کے لیے جگہ دے دو جب ایک سال گزر جائے تو تمہیں اس زمین پر ہل چلانے کا اختیار ہے۔ مختصر یہ کہ اس پادری سے ایک قبر کی جگہ کا سودا ہو گیا اور اس کی قیمت ادا کر دی گئی۔ قبر کی قیمت میں اختلاف ہے، کتابوں میں دو دینار سے لے کر پچاس دینار تک آیا ہے۔