حضرت میمون رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ حضرت معاوضہؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو چپکے سے اس ٹوہ میں لگایا کہ وہ یہ پتہ چلائیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں کیا ارادہ ہے؟ آیا وہ (یزید کی بیعت نہ کرنے اور خلیفہ بننے کے لئے) جنگ کرنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ ایک مرتبہ عمرو بن عاصؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کہا اے ابوعبدالرحمن (یہ حضرت عبداللہؓ کی کنیت ہے)
آپ رسول اللہﷺ کے صحابی او رامیرالمومنین (حضرت عمرؓ) کے صاحبزادے ہیں اور آپ خلافت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ آپ خلیفہ وقت کے خلاف کیوں نہیں اٹھ کھڑے ہوتے؟ اگر آپ ایسا کریں تو ہم آپ سے بیعت ہونے کو تیار ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے پوچھا کیا آپ کی اس رائے سے تمام لوگوں کو اتفاق ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا کہ ہاں! تھوڑے سے آدمیوں کے علاوہ باقی سب متفق ہیں۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا کہ اگر سب مسلمان اس رائے سے اتفاق کر لیں لیکن ہجر مقام کے تین آدمی اتفاق نہ کریں تو بھی مجھے اس خلافت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے حضرت عمرو بن عاصؓ سمجھ گئے کہ ان کا جنگ کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔ پھر حضرت عمرو بن عاصؓ نے پوچھا کیا آپ اس آدمی سے بیعت ہونے کے لئے تیار ہیں جس کی بیعت پر تمام لوگ اتفاق کرنے ہی والے ہیں؟ اور وہ آدمی آپ کے نام اتنی زمین اور اتنا مال لکھ دے گا پھر آپ کو اور آپ کی اولاد کو اور کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔ حضرت ابن عمرؓ نے کہا آپ پر سخت حیرت ہے آپ میرے پاس سے تشریف لے جائیں اور آئندہ کبھی (اس کام کے لئے) میرے پاس نہیں آئیں۔ آپ کا بھلا ہو۔ میرا دین آپ لوگوں کے دینار و درہم کی وجہ سے نہیں ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اس دنیا سے اس طرح جاؤں کہ میرا ہاتھ (دنیا کی آلائشوں سے بالکل پاک صاف ہو۔