ایک مرتبہ حضرت عمرؒ کے بیٹے نے آپ سے درخواست کی کہ بیت المال میں سے مجھے میری شادی کا خرچہ دے دیا جائے۔ آپ سے قبل خلفاء کے بیٹے اپنی شادی کا خرچہ بیت المال ہی سے کرتے تھے۔ آپ نے اپنے بیٹے کی اس عرض داشت کو مسترد کر دیا حالانکہ آپ کی واضح ہدایات تھیں کہ بیت المال سے نادار اور قلاش لوگوں کی شادیاں کروا دی جائیں۔
آپ کا وہ بیٹا نادار بھی تھا اور قلاش بھی۔ اگرچہ وہ خلیفہ کا بیٹا تھا لیکن خلیفہ خود نادار تھا۔ آپ نے بیٹے کے نادار ہونے کے باوجود اس کی درخواست مسترد کر دی کیونکہ اس کی ایک بیوی پہلے سے موجود تھی۔ حضرت عمرؒ نے نہ صرف اس کی درخواست کو مسترد کیا بلکہ ناراض ہو کر اسے لکھا: ’’تمہارا خط موصول ہوا، اس میں مرقوم ہے کہ میں مسلمانوں کے مال سے سوکنوں کو جمع کر دوں حالانکہ مہاجرین کے بیٹوں میں سے کسی کے پاس ایک بیوی بھی نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ عفیف اور پاک دامن رہے۔ خبردار! آئندہ مجھے اس قسم کی کوئی درخواست نہ کرنا۔ گھر کے برتن اور دوسرا سامان فروخت کرکے شادی کر لو۔‘‘ ایک طرف تو حضرت عمرؒ نے اپنے بیٹے کو یہ لکھا اور دوسری طرف کوفہ کے گورنر کو یہ لکھا کہ تم نے لکھا ہے کہ فوجیوں کو مدد دینے کے بعد تمہارے پاس بیت المال میں رقم بچ گئی ہے، لہٰذا یہ بچی ہوئی رقم اسے دے دو جس پر واجبی قرض ہے یا پھر اس کو دے دو جس نے نکاح کر لیا ہو مگر اس کے پاس گھر کے اخراجات چلانے کے لیے نقد روپیہ نہ ہو۔