حضرت عطارؒ حضرت عمرؒ کے انتقال کے بعد آپ کی اہلیہ کے پاس گئے اور ان سے حضرت عمرؒ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ ہوئے اور آپ پر کفالت عامہ کی ذمہ داریوں کی بارگراں پڑی تو آپؒ نہایت فکر مند ہوئے اور رونے لگے۔ آپ کی اہلیہ محترمہ فرماتی ہیں کہ میں ایک رات آپ کے پاس گئی۔ آپ اپنے مصلیٰ پر تھے اور زار وقطار رو رہے تھے۔ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر تھی۔ میں نے پوچھا: کیا کوئی نئی بات ہو گئی؟ آپ نے روتے ہوئے فرمایا: ’’امت محمدیہ کی پوری ذمہ داری میرے کندھوں پر ہے لہٰذا میں بھوکے،
فقیروں، بے سہارا مریضوں، مجاہدین، مظلوم اور ستم رسیدہ افراد، غریب الدیار قیدیوں، بوڑھے اور نحیف و ناتواں افراد اور ان لوگوں کے بارے میں سوچ رہا تھا جو بکثرت اہل و عیال والے ہیں لیکن مالدار نہیں ہے اور مختلف علاقوں میں بسنے والے اسی قسم کے دوسرے افراد کے بارے میں فکر مند تھا۔ مجھے احساس ہوا کہ عنقریب قیامت کے روز مجھ سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اللہ کے حضور میرے مقابلے میں ان لوگوں کے وکیل محمدؐ ہوں گے۔ ’’مجھے ڈر لگا کہ جرح میں میری بات ثابت نہ ہو سکے گی تو میں اپنی جان پر ترس کھا کر رونے لگا۔‘‘