حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خلافت سے پہلے جو بیت المال کے بعض مصارف و مخارج میں جو زیادتیاں اور اسراف ہو رہا تھا، آپؒ نے ان کی بھی اصلاح فرمائی اور حکومت کے کارکنوں کو یہ احساس دلایا کہ خزانہ کے ہم متولی ہیں مالک نہیں کہ اپنی مرضی سے جتنا چاہیں اور جہاں چاہیں خرچ کریں۔ چنانچہ ابن سعد نے طبقات میں روایت نقل کی ہے کہ ابوبکر ابن حزمؒ نے سلیمان بن عبدالملک کے آخری عہد خلافت میں کاغذ، قلم، دوات اور روشنائی کے دفتری اخراجات کے اضافہ کے لیے لکھا تھا۔ یہ خط ابھی بارگاہ خلافت میں پہنچا ہی تھا کہ خلیفہ سلیمان کا انتقال ہو گیا۔ لہٰذا وہ اس بارے میں کوئی اضافہ نہ کر
سکے۔ خلیفہ کے انتقال کے بعد حضرت عمرؒ مسند خلافت پر بیٹھے تو ابوبکر بن حزمؒ نے یہ مطالبہ ان کے سامنے پیش کیا۔آپ نے اس کے جواب میں ابوبکر بن حزمؒ کو لکھا کہ ’’وہ دن یاد کرو جب تم اندھیری رات میں بغیر روشنی کے کیچڑ میں اپنے گھرسے مسجد نبوی جایا کرتے تھے اور خدا کی قسم! آج تمہاری حالت اس سے کہیں بہتر ہے۔ ان چیزوں کے اخراجات میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ تم قلم باریک کر لو اور سطریں قریب قریب لکھا کرو۔ اپنی اس قسم کی ضروریات میں کفایت شعاری سے کام لو۔ میں مسلمانوں کے بیت المال سے ایسی رقم صرف کرنا ہرگز پسند نہیں کرتا جس سے ان کو فائدہ نہ پہنچے۔