حضرت ایوب بن وائل رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں میں مدینہ منورہ آیا تو مجھے حضرت ابن عمرؓ کے ایک پڑوسی نے یہ قصہ سنایا کہ حضرت ابن عمرؓ کے پاس حضرت معاویہؓ کی طًرف سے چار ہزار، ایک اور آدمی کی طرف سے چار ہزار اور ایک اور آدمی کی طرف سے دو ہزار (کل دس ہزار) اور ایک جھالر والی چادر آئی۔ پھر وہ بازار گئے اور اپنی سواری کیلئے ایک درہم کا چارہ ادھار خریدا۔
مجھے معلوم تھا کہ ان کے پاس اتنا مال آیا ہے) اس لئے میں بڑا حیران ہوا کہ ان کے پاس اتنا مال آیا ہے اور یہ ایک درہم کا چارہ ادھار خرید رہے ہیں اس لئے) میں ان کی باندی کے پاس گیا اور میں نے اس سے کہا میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں تم سچ سچ بتانا۔ کیا حضرت ابوعبدالرحمن ( یہ حضرت ابن عمرؓ کی کنیت ہے) کے پاس حضرت معاویہؓ کی طرف سے چار ہزار، ایک اور آدمی کی طرف سے چار ہزار، ایک اور آدمی کی طرف سے دو ہزار اور ایک چادر نہیں آئی ہے؟ اس نے کہا آئی ہے۔ میں نے کہا میں نے انہیں دیکھا ہے کہ وہ ایک درہم کا چارہ ادھار خرید رہے تھے (تو یہ کیا بات ہے؟ اتنے مال کے ہوتے ہوئے وہ ادھار کیوں خرید رہے تھے؟) اس باندی نے کہا رات سونے سے پہلے ہی انہوں نے وہ دس ہزار تقسیم کر دیئے تھے اور پھر وہ چادر اپنی کمر پر ڈال کر باہر چلے گئے تھے اور وہ بھی کسی کو دے دی پھر گھر واپس آ گئے چنانچہ میں نے (بازار میں جا کر) اعلان کیا کہ اے تاجروں کی جماعت! تم اتنی دنیا کما کر کیا کرو گے؟ (حضرت ابن عمرؓ کی طرح دوسروں پر سارا مال خرچ کر دو) کل رات حضرت ابن عمرؓ کے پاس دس ہزار کھرے درہم آئے تھے وہ (انہوں نے رات ہی سارے خرچ کر دیئے اس لئے) آج اپنی سواری کیلئے وہ ایک درہم کا ادھار چارہ خرید رہے تھے۔