’’روح‘‘ ولید کا بیٹا تھا جو کہ بڑا ظالم اور ستم گر تھا۔ لوگ اس سے خوفزدہ رہتے تھے۔ اس کے باپ ولید نے ’’حمص‘‘ میں کچھ دکانیں اس کے نام کر دی تھیں اور ان کی دستاویز بھی لکھ کر دی تھی۔ حمص والے اس بات کی شکایت لے کر حضرت عمرؒ کے پاس آئے۔ ان کی شکایت سن کر آپؒ نے ’’روح‘‘ سے کہا کہ ان لوگوں کی دکانیں چھوڑ دو لیکن روح کا موقف تھا کہ ولید کی دستاویزات کی رو سے یہ دکانیں میری ہیں حالانکہ اس بات کا ثبوت مل چکا تھا کہ دکانیں حمص والوں کی ہیں۔ آخر کار روح بن ولید اور
اہل حمص اٹھ کر چلے گئے۔ راستہ میں روح نے اہل حمص کو ڈرایا دھمکایا۔ وہ حضرت عمرؒ کے پاس شکایت لے کر آئے۔ حضرت عمرؒ کی رگِ فاروقی پھڑکی۔ آپ نے ایک پہرے دار کعب بن حامد کو بلا کر کہا: ’’روح ابن ولید کے پاس جاؤ اگر وہ اہلِ حمص کی دکانیں واپس کر دے تو خیر ورنہ اس کا سر میرے پاس لے آؤ۔‘‘ کعب بن حامد ننگی تلوار لے کر روح کے پیچھے گیا۔ روح نے جب جلاد کو تلوار سونتے ہوئے اپنی طرف آتے دیکھا تو اس کا دل دھڑکنے لگا اور اس نے ذلیل و مغلوب ہو کر وہ دکانیں اہلِ حمص کو لوٹا دیں۔