عنبسہ بن سعید بن العاص بنو امیہ کے اشراف میں سے تھا اور نہایت کثرت سے خلفاء کے پاس اس کی مجالس ہوتی تھیں۔ وہ اتنا مالدار تھا کہ اسے مزید مال کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ لیکن حریص ہونے کے ناتے وہ خلفاء سے مانگتا ہی رہتا تھا پھر بھی اس کا پیٹ نہ بھرتا تھا۔ ’’کورۂ چشم حریصاں پر نہ شد‘‘ کی زندہ مثال تھا۔ سلیمان نے مرنے سے قبل اس کو بیس ہزار دینار بطور عطیہ دیے۔
وہ اس طرح کہ ایک تحریر لکھ کر دے دی کہ یہ رقم بیت المال سے لے لی جائے۔ عنبسہ اس تحریر سے بہت خوش ہوا لیکن قبل اس کے کہ وہ یہ رقم بیت المال سے لیتا سلیمان کا انتقال ہو گیا اور بیت المال مقفل کر دیا گیا لہٰذا یہ تحریر نئے خلیفہ کے حکم پر موقوف رکھی گئی لیکن عنبسہ کی بدقسمتی کے نئے خلیفہ عمر بن عبدالعزیزؒ ہو گئے۔ عنبسہ ناامید نہ تھا کیونکہ حضرت عمرؒ اس کے گہرے دوست تھے۔ ایک روزعنبسہ حضرت عمرؒ کے پاس آیا دیکھا کہ ان کے دروازے پر بنو امیہ کے لوگ کھڑے ہیں ان لوگوں نے عنبسہ کو دیکھا تو کہا کہ اس کو واپس آنے دو اور لکھو کہ اس کا کام بنتا ہے یا نہیں؟ عنبسہ حضرت عمرؒ کے پاس گیا اور کہا: ’’امیرالمومنین! ہماری آپ سے رشتہ داری ہے اور آپ کی قوم آپ کے دروازے پر کھڑی ہے اور آپ سے التجا کر رہی ہے کہ آپ سے پہلے کے خلفاء جو کچھ انہیں دیا کرتے تھے وہ آپ بھی انہیں دیں۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا: ’’عنبسہ! میرے مال میں تمہارے لیے کوئی گنجائش نہیں، باقی رہا سرکاری بیت المال سو اس میں تمہارا اور دوسرے تمام مسلمانوں کا برابر کا حق ہے۔ کسی مسلمان کے عزیز اور رشتہ دار ہونے کی وجہ سے اس کا یہ حق روکا نہیں جا سکتا اگر خلافت کے کاموں میں سب لوگوں کی تم جیسی رائے ہو جائے تو یقیناً تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو جائے۔‘‘ امیرالمومنینؒ کا جواب سنکر عنبسہ نے کہا: ’’امیرالمومنین! اس صورت میں آپ کی قوم آپ سے کسی اور جگہ جانے کی اجازت طلب کرتی ہے۔
حضرت عمرؒ نے جواب دیا: وہ جہاں چاہیں چلے جائیں میں نے انہیں اجازت دے دی البتہ کسی ذمی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائیں۔ اب عنبسہ نے بات تبدیل کی اور کہا: ’’امیرالمومنین! سلیمان بن عبدالملک نے مجھے ایک ہدیہ دیاتھا لیکن عطیہ حاصل کرنے سے قبل سلیمان کا انتقال ہو گیا براہ کرم اب آپ یہ عطیہ مجھے دلوا دیں میرے آپ کے ساتھ جس قدر گہرے تعلقات ہیں اس قدر سلیمان سے بھی نہ تھے۔ حضرت عمرؒ نے پوچھا: یہ عطیہ کتنی رقم کا ہے؟
وہ بولا: بیس ہزار دینار کا۔ اس قدر بھاری رقم سن کر حضرت عمرؒ نے چیخ ماری اور فرمایا: ’’بیس ہزار دینار تو مسلمانوں کے چار ہزار گھرانوں کے کام آ سکتے ہیں اور میں اس قدر گراں قدر رقم ایک شخص کو دے دوں، بخدا! میں ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ عنبسہ نے کہا: پھر تو آپ مجھے بھی اجازت دے دیں کہ میں آپ کی قوم کے ساتھ کسی دوسری جگہ چلا جاؤں۔ فرمایا: میں نے تمہیں بھی اجازت دے دی۔ عنبسہ کا بیان ہے کہ میں آخر کار آپ کے پاس سے نکل آیا۔
جب دروازے پر پہنچا تو آپ نے مجھے آواز دے کر بلایا اور فرمایا: کثرت سے موت کو یاد کیا کرو، اگر تم پر تنگی ہے تو موت کی یاد تمہاری تنگی دور کر دے گی اور اگر فراخی ہے تو اس سے دنیا ہیچ نظر آئے گی۔‘‘ حضرت عمرؒ کی یہ بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ پھر باہر آنے کے لیے آگے بڑھاتو آپ نے مجھے پھر آواز دی۔ اب کی بار آپ نے مجھ پر ترس کھایا اور میرے تعلقات کا احترام کیا۔
فرمایا: ’’عنبسہ! میرے خیال میں تم کو کہیں جانا نہیں چاہیے کیونکہ تم ایک مالدار اور متمول شخص ہو۔ میں سلیمان کا ترکہ فروخت کرنے والا ہوں، تم اسے خرید لو۔ انشاء اللہ مافات کی تلافی ہو جائے گی۔‘‘ عنبسہ کہتے ہیں کہ آپ کی رائے کو باعث برکت سمجھتے ہوئے ٹھہرا رہا اور میں نے ایک لاکھ میں سلیمان کا ترکہ خرید لیا پھر میں اس ترکے کو عراق لے گیا اور وہاں دو لاکھ میں فروخت کر دیا۔